علامہ خادم حسین رضوی گزشتہ شب لاہور میں انتقال کرگئے، ان کی نماز جنازہ کل مینار پاکستان پر ادا کی جائے گی، علامہ خادم حسین پاکستان میں بیشمار علماء کرام کی موجودگی کے باوجود نہایت سرعت سے منظر عام پر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آواز پورے ملک میں سنائی دینے لگی۔
کسی بھی مذہبی معاملے پر دیگر علماء کرام کی طرح مصلحت پسندی کے بجائے ہمیشہ دوٹوک موقف اپنانے والے علامہ خادم حسین رضوی کو ان کی سخت زبان کی وجہ سے اکثر ہدف تنقید بھی بنایا جاتا رہا ہے لیکن ان کا یہی طرز تکلم ان کی شہرت کی وجہ بنا۔
خادم حسین رضوی کی ابتدائی زندگی
خادم حسین 22 جون 1966ء کو ضلع اٹک کے علاقے نکہ توت میں پیدا ہوئے، چوتھی جماعت تک نکا کلاں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 8سال کی عمر میں جہلم چلے گئے اور قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر 1 کے دار العلوم میں حفظ کیے،بارہ برس کی عمر میں دینیہ ضلع گجرات چلے گئے اور وہاں دو سال قرأت کی تعلیم حاصل کی۔
قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1980ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور چلے گئے،وہاں جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی،لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں فارغ التحصیل ہو ئے۔
مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی،مفتی محمد عبداللطیف نقشبندی،علامہ محمد رشید نقشبندی، علامہ عبدالحکیم شرف قادری، علامہ حافظ عبدالستار سعیدی،علامہ محمد صدیق ہزاروی نے خادم حسین کو تعلیم دی جبکہ 1988ء میں دورۂ حدیث مکمل ہوا اور دستارِ فضیلت عطا کی گئی۔پنجابی ان کی مادری زبان ہے تاہم انھیں اردواورفارسی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔
عملی زندگی کا آغاز
حافظ خادم حسین نے 1993ء میں محکمہ اوقاف پنجاب میں پہلی ملازمت اختیار کی ، ان کا داتا دربا لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد میں خطیب مقرر کیا گیا اورجب محکمہ اوقاف کی ملازمت ترک کی تو اس وقت ان کی تنخواہ بیس ہزار ماہانہ تھی، اس کے بعد یتیم خانہ لاہور روڈ کے قریب واقع مسجد رحمت اللعالمین میں خطیب رہے جہاں سے پندرہ ہزار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔
1990 ء میں جامعہ نظامیہ میںدرس دینا شروع کیا۔1993ء میں محکمۂ اوقاف لاہور کی طرف سے دربار سائیں کانواں والے میں خطابت و امامت کے لیے تقرر ہوا۔بعد ازآں دربار حضرت شاہ ابوالمعالی کی مسجد میں تبادلہ ہوا۔
وہاں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے چار ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے، بحال ہو کر پیر مکی صاحب لاہور کی مسجد میں فرائض انجام دینے لگے لیکن حکومتی پالیسیاں حسب معمول ان کا ہدف تھیں جس کی وجہ سے ملازمت کا یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور محکمۂ اوقاف نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا۔
تحریک لبیک کا قیام
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی رہائی کی تحریک کی وجہ سے علامہ خادم رضوی نے شہرت حاصل کی اور ممتاز قادری کی سزائے ان کے سیاست میں آنے کا سبب بنی۔ ممتاز قادری کو سزائے کے بعد تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سرپرست اعلیٰ رہے لیکن ڈاکٹر اشرف آصف جلالی سے اختلاف کی وجہ سے تحریک لبیک پاکستان بنا لی۔
2017 میں این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں پہلی بار سیاست میں حصہ لیا اور7ہزار ووٹ حاصل کئے اور این اے 4،پشاور کے ضمنی الیکشن میںتقریبا دس ہزار ووٹ حاصل کیے ۔لودھراں کے الیکشن میں بھی ان کی تنظیم کو گیار ہزار کے قریب ووٹ ملے۔
دھرنے اور احتجاج
ممتاز قادری کی سزاء کیخلاف احتجاج کے بعد علامہ خادم حسین رضوی کی کال پر ملک بھر میں احتجاج نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ان کا نام ملک کے طول عرض میں گونجنے لگا۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں قانون سازی میں مبینہ سازش کیخلاف راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا اور فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف وفات سے چند روز قبل دوبارہ فیض آباد پر دھرنا دیا۔
علامہ خادم رضوی کا پیغام
علامہ خادم رضوی ملکی سالمیت اور دین کی حرمت پر ایک لفظ سننے یا برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے، حضور پاک ﷺ کی عزت اور وطن کی آن پر ہمیشہ جان دینے کو تیار رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے جانثار ان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔
علامہ خادم رضوی کا سانحہ ارتحال ملک کیلئے ایک بڑا نقصان ہے، علامہ خادم رضوی کی رحلت تمام اہل اسلام کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
آج ملک میں ہر آنکھ اشکبار ہے اور عقیدت ان کی وفات پر نہایت غمزدہ ہیں ۔ علامہ خادم رضوی حق پر ڈٹ جانے اور سچ بات پر قائم رہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور ان کا پیغام بھی حق اور سچائی پر مبنی تھا جس کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔