’’سندھ کی مدر ٹریسا‘‘ کہلانے والی رضیہ ساہتو کون ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آئیے، ان سے ملیے۔ یہ ہیں رضیہ ساہتو، جو کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر میں یتیم خانہ چلا رہی ہیں اور اس خدمتِ خلق کے عوض انہیں ٹنڈو محمد خان کے علاقے میں “مدر ٹریسا” کا خطاب ملا ہے۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق مدر ٹریسا ایک البانوی- بھارتی نژاد کیتھولک نن تھیں جنہوں نے اپنی زندگی بے سہارا افراد کے لیے وقف کر دی تھی اور کلکتہ کی ایک کچی آبادی میں فوت ہو گئیں۔

ساہتو اس وقت یتیم خانے میں 20 بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق یہ فلاحی ادارہ ان کی والدہ، زلیخا ساہتو نے دو عشروں قبل قائم کیا تھا جب انہیں سڑک کنارے پڑی ہوئی ایک نوزائیدہ بچی ملی۔ وہ اسے اٹھا کر گھر لے گئیں اور اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اب وہ اس بچی کی سرپرست ہیں۔

اس وقت ٹنڈو محمد خان میں نوزائیدہ بچوں کو نالوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر چھوڑ جانے کا عمل بہت زیادہ دیکھنے میں آتا تھا۔ اس بنا پر رضیہ ساہتو کی والدہ نے اپنے گھر کے باہر بچوں کا ایک جھولا رکھ دیا تاکہ لوگ بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ جانے کی بجائے اس جھولے میں رکھ جایا کریں۔ اس سے کئی بچوں کو ساہتو کے آبائی گھر میں پناہ اور ایک نئی زندگی ملی۔

2021ء میں زلیخا کی وفات کے بعد ان کی بیٹی، رضیہ ساہتو نے یتیم خانے کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی جس میں کئی چیلنجز درپیش تھے۔

“تقریباً 20 سے 25 سال قبل میری والدہ نے یہ کام شروع کیا۔ ان کی وفات کے بعد میں تنہا اسے سنبھال رہی ہوں۔ میرے پاس 20 بچے ہیں اور میں ان کی ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔” عرب نیوز کو یہ بات بتاتے ہوئے ساہتو نے گود میں ایک بچے کو اٹھایا ہوا تھا جو ان کا سرخ دوپٹہ کھینچ رہا تھا۔

“یہ کام مشکل ہے اور لوگ بہت باتیں سناتے ہیں۔ ہمارے کئی رشتے دار ان بچوں کو کراہت سے دیکھتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے ہم پر اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے ہیں۔”

لیکن بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش کے تحت ساہتو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بارہ بچوں کو ان کے والدین نے چھوڑ دیا تھا جبکہ آٹھ بچے ساہتو کی نگہداشت میں اس وقت آئے جب ان کی ماؤں نے دوسری شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ بچوں کو ان کے والدین نے بھی ساہتو کے سپرد کردیا کیونکہ وہ غربت کے سبب ان کی پرورش کرنے سے قاصر تھے۔

ساجی کارکن، جاوید ہالیپوٹو نے بتایا کہ “کسی حکومتی یا نجی ادارے نے ساہتو کی طرح کا اقدام ٹنڈو محمد خان میں نہیں کیا ہے۔”

رضیہ کی والدہ، زلیخا ساہتو کی طرف سے ان کے گھر کے باہر رکھا ہوا جھولا - ٹنڈو محمد خان، سندھ، پاکستان - 6 جولائی، 2023 (عرب نیوز فوٹو)

ہالیپوٹو نے کہ”آج کل مہنگائی بہت بڑھ رہی ہے اور لوگوں کے لیے خود اپنے کھانے کا بندوست کرنا مشکل ہے، ایسے میں ساہتو ان لاوارث بچوں کی نہ صرف پرورش کر رہی ہیں بلکہ انہیں پڑھا بھی رہی ہیں جو کہ بہت بڑا کام ہے۔” “رضیہ ہمارا فخر ہیں اور ٹنڈو محمد خان اور پورے سندھ کی “مدر ٹریسا” ہیں۔”

35 سالہ رضیہ پیسے کمانے کے لیے کپڑے سیتی ہیں اور ایک بھائی بھی خدمتِ خلق کے اس کام میں رکشہ چلا کر ان کی مدد کر رہا ہے۔ راشن اور کپڑوں کے عطیات سے بھی بچوں کو مدد مل جاتی ہے۔

لیکن ساہتو کہتی ہیں کہ بچوں کو زیادہ بہتر زندگی دینے کے لیے انہیں حکومت اور این جی اوز کی طرف سے مزید مالی مدد درکار ہے۔ اپنی جانب سے، بچوں کی ذمہ داری کی وجہ سے رضیہ نے شادی سمیت اپنی ذاتی زندگی تک کو قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ساہتو نے بتایا کہ 2017ء میں ان کی منگنی ہو گئی تھی لیکن جب سسرال والوں سے کہا کہ وہ شادی کے بعد ایک یتیم بچے کو بھی ہونے والے شوہر کے گھر میں اپنے ساتھ رکھیں گی تو ان لوگوں نے نہ صرف اس درخواست پر انکار کردیا بلکہ بچے کے لئے ہتک آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔ پھر ساہتو نے کبھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ “میں نے ان بچوں کو اپنا لیا ہے اور ان کی ماں بن کر رہ رہی ہوں۔ ان بچوں کو بھی معاشرے میں زندگی گذارنے کا حق ہے۔”

Related Posts