عالمی کپ کا آٹھواں ایڈیشن بہت سی اونچ نیچ، اپ اینڈ ڈاؤنز اور اتار چڑھاؤ کے بعد اختتام کی جانب گامزن ہے، تین بڑے میچز اور چار بڑی ٹیمیں میدان میں موجود ہیں، دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے ہاتھوں سے ٹرافی پھسل چکی ہے، پاکستان بھارت اور انگلینڈ ایک ایک بار یہ ٹرافی اٹھا چکے ہیں، جبکہ نیوزی لینڈ تا حال عالمی کپ ہاتھوں میں اٹھانے کے ذائقے سے محروم ہے۔
پہلا سیمی فائنل بدھ کو سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا، آئیے دیکھتے ہیں کون کتنے پانی میں ہے۔
میدان کی بات کریں تو یہ وہی میدان ہے جہاں سے سپر 12 مرحلے کا دھماکے دار آغاز کرتے ہوئے کیویز نے میزبان کینگروز کو ایسی کراری شکست سے دوچار کیا کہ وہ آخر تک اس بڑی ہار کا خسارا پورا نہیں کر سکے، پاکستان نے بھی اسی میدان میں جنوبی افریقہ کو شاندار رگڑا لگاتے ہوئے فتح حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
حرم شریف میں معمر اور معذور زائرین کیلئے بہترین سہولتوں کا آغاز
بارش۔۔۔۔!
کل سڈنی کے معیاری وقت کے مطابق صبح دس بجے 22 فیصد بارش کا امکان ہے اور پاکستان کا میچ سڈنی کے وقت کے مطابق شام سات بجے کھیلا جائے گا، اس لحاظ سے پر امید ہیں کہ بارش سے اتنا نقصان نہیں ہو گا اور ایک مکمل میچ دیکھنے کو ملے گا۔
باہمی مقابلوں کی بات کریں تو پاکستان اور نیوزی لینڈ 28 مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں اور اس دوران پاکستان نے 17 میچز جیت کر اپنا دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے، ورلڈکپ میچز کا ریکارڈ کھنگالیں تو پاکستان نے چھ میں سے چار میچز جیت رکھے ہیں اور کسی بھی عالمی کپ کے سیمی فائنل کو دیکھا جائے تو پاکستان اور نیوزی لینڈ جب کبھی ٹکرائے ہیں (چار بار) تو فتح پاکستان کا مقدر ٹھہری ۔
سڈنی کا یہ خوبصورت میدان بلے بازوں کیلیے جنت سمجھا جاتا ہے، تیز گیندباز ہمیشہ سے ہی یہاں جدو جہد کرتے نظر آتے ہیں۔ ایلن فن، کونوے کی کینگروز کے خلاف اور حارث و شاداب کی جنوبی افریقہ کے خلاف بلے بازی اس بات کا ثبوت ہے کہ سٹارک اور کمنز ہوں یا نورکیا اور ربادا کسی کو یہاں بخشا نہیں گیا، البتہ سپن گیند باز یقیناً اس پچ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔عموماً یہاں ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کی جاتی ہے اور گذشتہ کئی میچز بھی پہلے بلے بازی کرنے والی ٹیم ہی کامیاب ہوتی دکھائی دی ہے ۔
پاکستان کو ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی ہی کرنی ہے، اس کیلیے سب کی چاہت تو یہی ہے کہ اوپنر کے طور پر حارث کو موقع دیا جائے تا کہ وہ برق رفتار تیس چالیس رنز بنا کر دے جائیں، اس سے ہمارے آنے والے بلے بازوں کیلیے سہولت ہو گی اور ایک عمدہ ٹوٹل کھڑا کرنا بھی آسان ہو گا اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا (جو کہ عین ممکن ہے) تو رضوان اور بابر دونوں کو کل بلے پر جمی گرد جھاڑ کر ایک عمدہ اور فلائنگ سٹارٹ دینا ہو گا، شنید است کہ کھلاڑی سڈنی پہنچ کر آج آرام کرتے رہے جبکہ بابر اعظم اپنی ناراض محبوبہ یعنی کہ اپنی فارم کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے اکیلے ہی پریکٹس کرتے رہے، ٹرینٹ بولٹ جس کے سامنے دنیا کے بہترین بلے بازوں کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں بابر اعظم کو ان سے خاص محبت ہے سو اس لیے امید ہے کہ بولٹ ہی کے اوور میں بابر کی وہ کلاس اور فارم واپس آئے گی جس کی بابت وہ چہار دانگِ عالم میں مشہور ہیں، یعنی کہ جس رفتار سے گیند بابر کے پاس آئے اسی رفتار سے کور اور سٹریٹ ڈرائیو کی شکل میں باؤنڈری لائن کراس کر جائے ۔
رضوان کو نجانے کیا ہو گیا کہ اس سے قبل وہ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کی تیز پچز پر بہترین بلے بازی کر چکے ہیں، اس بار اب تک اپنے کردار سے انصاف نہیں کر سکے، یقیناً اس بابت وہ خود بھی بے حد پریشان ہوں گے اور کل کے میچ میں دھماکے دار واپسی ہو گی۔
ون ڈاؤن پر شان ہو یا نواز، حارث ہو یا شاداب یہ فیصلہ مینجمنٹ کا ہے جو موقعے کے لحاظ سے جو بھی بہتر سمجھیں، البتہ خوشدل اور آصف علی کو کل کے میچ میں آزما کر وننگ کمبینیشن خراب کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، جو لڑکے پچھلے میچز میں پرفارم کرتے آئے ہیں انہی پر اعتماد رہنا چاہیے، ویسے بھی اس پچ پر سپن گیند قدرے کامیاب ہیں تو شاداب و نواز اور افتخار سے گیند بازی کروانے میں کوئی حرج نہیں ۔
کیویز گیند بازوں میں ٹم ساؤدھی کا ریکارڈ اس میدان پر شاندار ہے، ان کو ذرا سنبھل کر کھیلنا ہو گا اور اس کے علاوہ مچل سینٹنر بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں ۔
پاکستان کی جانب سے افتتاحی اوورز میں شاہین کا جادو چلنا بے حد ضروری ہے تا کہ ایلن فِن، کونوے کو پکڑنا اور بعد ازاں حارث کے ذمے ہو گا کہ وہ ولیمسن اور فلپس کو قابو کرے ۔
مضبوط پہلو۔۔۔!
پاکستان کا مضبوط پہلو بلاشبہ پاکستان کی جاندار باؤلنگ اور لڑنے کی صلاحیت ہے، میچ کو دلچسپ بنانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، بھلے ٹوٹل کم یا پھر ٹیم ورلڈ کلاس ہو، ہم ان سے ان کے لیول پر جا کر کھیلتے ہیں، حارث ہو یا شاہین، نسیم ہو کہ وسیم، شاداب کی گھومتی گیندیں ہوں یا پھر نواز کی ٹائٹ لائن اینڈ لینتھ یہ ہی ہماری اصل قوت ہے اور ان شاءاللہ اسی کے بل بوتے پر کل کا میچ بھی ہم جیتیں گے۔
کیویز کا مضبوط پہلو ان کے پاس ایک مکمل پیکج والی ٹیم ہے، جس میں برق رفتاری سے رنز کرنے والا اوپنر ہے، درمیان میں مار دھاڑ کرنے والا بلے باز فلپس اور میچ کی صورتحال کے مطابق کھیلنے والا کپتان ہے، گیند بازی میں ان کے دو فاسٹ باؤلر جو دائیں اور بائیں دونوں ہاتھ سے گیند بازی کرنے والے ہیں جبکہ لیگ سپنر ایش سوڈھی کے ساتھ مچل سینٹنر بھی ہوں گے ۔
کمزور پہلو۔۔۔۔!
پاکستان کا کمزور پہلو ہم سب کی توقعات کے عین مطابق وہی جو بس کچھ ہی عرصہ قبل ہمارے لیے اعزاز اور سب سے مستند سمجھا جاتا ہے، جی ہاں ہماری اوپننگ جوڑی….. امید ہے کل ہماری یہ کمزوری بھی دور ہو گی اور ہم ایک مضبوط ٹیم بن کر میدان سے فاتح کے طور پر باہر آئیں گے۔
کیویز کا کمزور پہلو ان کا لوئر آرڈر اور کپتان ولیمسن کی ناقص فارم ہے، نیشام نہیں چل پا رہے اور مچل بھی ناکام ہیں اور ولیمسن نے اگرچہ آخری میچ میں اچھی باری کھیلی ہے مگر یہ مستقل مزاجی سے اس طرح تیز نہیں کھیل رہے جس کا خمیازہ ان کی ٹیم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
یہ تو ہوئی اعداد و شمار اور تجزیے کی بات لیکن سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ میچ ہو تو تجزیے اور اعداد و شمار کا غلط ثابت ہونا عین ممکن ہے، اس لیے بس امید ہی کر سکتے ہیں کہ ہم کل اچھا کھیلیں گے، ہر کھلاڑی اپنی کارکردگی سو فیصد سے بھی زائد دکھائے گا تو ہی ہم کامیاب ہوں گے ۔
بڑھے چلو اے پاکستان کے شاہینو کہ فتح تمہاری منتظر ہے، عالمی کپ ہاتھ سے جانے نہ پائے، بس دو میچز اور ۔۔۔.! یاد رکھنا کہ میدان میں تم گیارہ اترو گے مگر دعائیں 22 کروڑ ہوں گی۔