مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی اراضی پر غیر قانونی اور جبری قبضوں کے خلاف احتجاج کرنے پر اسرائیلی فورسز نے فلسطینی مسیحی کارکن ایلس کسیا کو پہلے گرفتار اور بعد ازاں رہا کر دیا۔
فلسطینی خبر رساں ادارے کے مطابق ایلس اور اس کی والدہ مشیل کو اتوار کے روز بیت اللحم کے قریب بیت جالا کے علاقے مخرور میں اپنی ملکیتی اراضی پر دھرنا دینے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
ایجنسی نے مزید کہا کہ پولیس نے مشیل کو رہا کر دیا اور ایلس کو پیر کو رہا ہونے سے پہلے 15 دنوں کے لیے اپنے علاقے میں واپس آنے پر پابندی لگا دی۔
بین الاقوامی تنظیم Community Peacemaker Teams (CPT) کے مطابق قابض یہودی آباد کاروں نے ابتدائی طور پر 31 جولائی کو اسرائیلی فوج کے زیر سایہ مسیحی خاندان پر حملہ کیا جب انہوں نے زبردستی خاندان کے گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
ایلس نے پولیس کو کال کی تاکہ آباد کاروں کو ان کی ذاتی املاک کو تباہ کرنے سے روکا جائے، لیکن اسرائیلی پولیس افسران نے ایلس کی مدد کرنے کے بجائے الٹا ان کے بھائی کو حراست میں لے لیا جس نے مزاحمت کی کوشش کی تھی۔
ایلس کسیا کون ہے؟
ایلس کسیا مقبوضہ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والی مسیحی فلسطینی کارکن ہے، جن کے آبائی گھر پر حال ہی میں مسلح یہودی آباد کاروں نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا۔
کسیا خاندان اس علاقے کے آخری باقی ماندہ مسیحی خاندانوں میں شامل ہے۔ انہیں برسوں سے یہودی آبادکاروں کی غیر قانونی بستیوں کی تعمیر سے خطرہ لاحق ہے اور 2019 میں ان کے گھر اور ریستوران کو منہدم کر دیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایلس کا خاندان، جو کم از کم 40 سالوں سے زمین کا مالک ہے، نے اپنی جائیداد پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔
“کسیا نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم 20 سال سے زیادہ عرصے سے اس جدوجہد میں ہیں۔ ہم مالی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر تھک چکے ہیں لیکن ہم ہار نہیں مان رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ سب واپس لینا ہے۔”
اہم بات یہ ہے کہ المخرور کو 2014 میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں یہودی غیر قانونی بستیوں کی توسیع نے ثقافتی ورثہ کی جگہ کو بڑے خطرے میں ڈال دیا ہے۔