نسل کشی کیس میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے 2 جج کون ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا دعویٰ دائر کرنے کے بعد عالمی عدالت انصاف نے ہنگامی اقدامات جاری کیے لیکن 17 ججز کے فیصلے میں عدالت جنگ بندی کا مطالبہ کرتے کرتے رہ گئی جن میں سے زیادہ تر نے پیش کردہ تحریکوں کے حق میں ووٹ دیا۔

عدالت نے ابھی تک نسل کشی کے الزامات کی خصوصیات کا فیصلہ نہیں کیا جس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف نہ اپیل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

پینل کے 17 ججز میں سے ایک ایڈہاک اسرائیلی جج اور ایک اور مستقل آئی سی جے جج نے زیادہ تر چھ ہنگامی اقدامات کے خلاف ووٹ دیا اور اسرائیل کے موقف کی حمایت کی۔

اس پینل کی قیادت امریکہ سے صدر جان ای ڈونوگھو اور روس سے نائب صدر کرل گیورجیئن کر رہے ہیں۔ وہ ایک متنوع بنچ کی سربراہی کر رہے ہیں جن میں سلواکیہ، فرانس، مراکش، صومالیہ، چین، یوگنڈا، انڈیا، جمیکا، لبنان، جاپان، جرمنی، آسٹریلیا اور برازیل سمیت 13 دیگر ممالک کے ججز شامل ہیں۔

آئی سی جے کے وہ جج کون ہیں جنہوں نے تحریک کے خلاف ووٹ دیا؟

جولیا سیبوٹیندے

9 اگست 2010 کو نیدرلینڈ کے شہر لیڈسچنڈم میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ خصوصی عدالت برائے سیرا لیون میں ٹی وی سے لی گئی یہ تصویر صدارتی جج جولیا سیبوٹندے کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی)

وہ یوگنڈا کی برطانوی تربیت یافتہ جج ہیں جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جگہ حاصل کرنے والی پہلی افریقی خاتون بھی ہیں۔ فی الحال 2021 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی دوسری مدت میں وہ 2012 سے عدالت کی رکن ہیں۔

انہوں نے 2009 میں بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پر ایڈنبرا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف لاز کی اعزازی ڈگری حاصل کی ہے۔ 1990 میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے بھی امتیاز کے ساتھ قانون میں ماسٹر ڈگری؛ اور 1977 میں یوگنڈا کی میکریری یونیورسٹی سے قانون کی بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

وہ ایک مصنفہ ہیں جنہوں نے علمی مقالے لکھے ہیں جن میں ایک کا عنوان ہے ’بین الاقوامی فوجداری انصاف: مسابقتی مفادات میں توازن: دفاعی وکیل اور متأثرین اور گواہوں کے وکیل کو درپیش چیلنجز‘۔

بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے عارضی اقدامات کے خلاف ان کے مستقل ووٹوں کے خلاف بات کی ہے۔

ہارون بارک 

اسرائیلی سپریم کورٹ کے سابق صدر ہارون باراک نے فلسطینی گروپ حماس پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا اور 3 نومبر 2023 کو تل ابیب، اسرائیل میں مغویوں کے خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران عالمی برادری سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ (تصویر: رائٹرز)

باراک ایک اسرائیلی وکیل ہیں جنہیں جنوبی افریقہ کے اسرائیل کے خلاف کیس سے قبل آئی سی جے کے 15 ججوں کے پینل میں مقرر کیا گیا تھا۔ آئی سی جے کے قوانین کے تحت ایک ملک جس کے پاس بینچ پر اپنی نمائندگی کرنے کے لیے جج نہیں وہ ایڈہاک جج کا انتخاب کر سکتا ہے۔

ہارون بارک 87 سالہ اسرائیلی سپریم کورٹ سے ریٹائرڈ جج ہیں اور قانونی مطالعہ کے لیے اسرائیل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ چینل 12 کی اس سے قبل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے باراک کی تقرری کی منظوری دے دی تھی۔

باراک لتھوانیا میں پیدا ہوئے اور عبرانی یونیورسٹی کے ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور یروشلم میں واقع یادواشیم، ورلڈ ہولوکاسٹ ریمیمبرنس سینٹر پر ایک آن لائن پروفائل کے مطابق اسی ادارے میں قانون کی تعلیم جاری رکھی۔

وہ انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے فرد رہے ہیں اور زیادہ سیکولر یہودیوں میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔

اعلان کے بعد کچھ سوشل میڈیا نے عارضی اقدامات کے خلاف ووٹ دینے پر باراک کی مخالفت کی۔

Related Posts