لاشیں کہاں ہیں؟ سینئر صحافی رؤف کلاسرا کا تجزیہ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Where Are the Bodies? Analysis by Senior Journalist Rauf Klasra

سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنوں کی مبینہ ہلاکتوں کے حوالے سے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔

اپنے حالیہ کالم میں سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے لکھا:لاہور سے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر چل رہی ہے کہ آپ کے شہر میں 219 لوگ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ میں نے کہا لیکن لطیف کھوسہ نے حامد میر کے شو میں 278 کا نمبر دیا تھا اور شیخ وقاص اکرم نے کاشف عباسی کو 100 بتایا۔

یہ یقیناً ایک بہت ہی دردناک لمحہ ہے، چاہے ایک انسان کی جان ہی کیوں نہ گئی ہو۔ اس کے گھر والے زندگی بھر اس دکھ سے نہیں نکل سکیں گے۔ اس آپریشن کی مذمت ہونی چاہیے، کیونکہ لوگوں کا پرامن احتجاج کرنا ایک حق ہے۔

 

اب مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں کہ کتنے لوگ جان سے گئے۔ حکومت 10 یا 12 کی تعداد بتا رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی 200 سے 300 کے قریب ماننے کو تیار نہیں۔ مرنے والوں کا دکھ الگ ہے، لیکن آپ مان لیں کہ اگر 219 لوگ ایک گھنٹے کے آپریشن میں جاں بحق ہوئے ہوتے، تو جناح ایونیو، اسلام آباد پر ان کی لاشیں پڑی ہوتیں تو ایک قیامت برپا ہو جاتی۔

اسلام آباد جیسا شہر ایک خوفناک منظر پیش کرتا۔ ہر کسی کے پاس موبائل فون ہیں، لیکن کسی نے بھی اس واقعے کی ویڈیو نہیں بنائی۔ دو یا تین سو لاشیں سڑک پر پڑی ہیں اور لوگ گزر رہے ہیں، مگر کوئی بھی اس کی ویڈیو نہیں بنا رہا۔

گنڈاپور اس بار بشریٰ بی بی کو لے کر پشاور بھاگ نکلے، انقلاب کا کیا بنا؟ویڈیو

کسی بھی طاقتور حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک گھنٹے میں دو تین سو لوگ فائرنگ کر کے ان کی لاشیں غائب کر دے۔ جن بھوت بھی یہ کام نہیں کر سکتے۔ جب بشریٰ اور گنڈاپور نے ڈی چوک سے اپنے ورکرز کو بے ہتھیار چھوڑ کر بھاگنے کا فیصلہ کیا، تو ایک گھنٹہ بعد محسن نقوی اور عطا تارڑ پریس سے اسی ڈی چوک میں بات کر رہے تھے، جہاں پی ٹی آئی کے مطابق دو تین سو لوگ مارے گئے تھے۔ وہاں میڈیا کے لوگ موجود تھے، ڈی چوک کھل چکا تھا اور شہر کی ٹریفک بحال ہو چکی تھی۔

اگر جناح ایونیو اور ڈی چوک پر واقعی لاشیں موجود ہوتیں تو انہیں صاف کرنے میں پوری رات لگ جاتی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ڈی چوک اور جناح ایونیو کو بند رکھتی۔

مطلب یہ کہ حکومت نے ایک گھنٹے میں دو تین سو لوگوں کو بھی مار دیا، ہزاروں کا مجمع بھی منتشر کر دیا، سب کی لاشیں بھی غائب کر دیں اور سڑک پر بہتے خون کو دھو دیا، جیسے بینظیر بھٹو کے خون کو دھویا گیا تھا۔ اور کسی میڈیا والے کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوا؟ ایک گھنٹے میں سب کچھ معمول پر آ گیا اور میڈیا کے دو اہم وزیروں نے گفتگو کی، جبکہ پاکستانی چینلز کے رپورٹرز اور کیمرہ مین بھی وہاں موجود تھے؟

موبائل فونز سے بھرے اینکرز، یوٹیوبرز اور میڈیا کے لوگوں کو بھی کچھ علم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دو تین سو لاشیں غائب ہو گئیں؟ کیا کسی نے بھی ان لاشوں کو اٹھانے کا ایک کلپ نہیں بنایا؟ کیا کسی کا ضمیر انسانی خون دیکھ کر نہیں جاگا کہ وہ اس ظلم کی کہانی سنائے؟

آپ کو علم ہے کہ دو یا ڈھائی سو لاشیں اٹھانے اور خون صاف کرنے کے لیے کتنی بڑی افرادی قوت اور لاجسٹک سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلیو ایریا کی سڑک پر تو ان دو تین سو لوگوں کا خون بہتا ہوگا۔ اس دھرنے کے ہر لمحے کا کلپ موجود ہے لیکن دو تین سو انسانی لاشوں کا نہیں ہے۔

اب سب سوشل میڈیا پر جعلی تصویروں پر انحصار کر رہے ہیں۔ چوبیس سے چھببیس گھنٹوں بعد بھی مقتولین کے چند ورثا کے علاوہ کوئی سامنے نہیں آیا۔ وہ دو تین سو مظلوم خاندان کہاں ہیں جن کے معصوم لوگ مارے گئے؟

چوبیس چھبیس گھنٹے بعد تو انہیں سامنے آنا چاہیے تھا اور اپنا دکھ ہم سے بانٹنا چاہیے تھا۔ کوئی بھی حکومت اتنی قابل نہیں ہو سکتی کہ ایک چھوٹے شہر اسلام آباد میں ایک گھنٹے میں دو تین سو لوگ مار کر سڑکوں کو لہو سے صاف کر دے اور تمام لاشیں غائب کر دے۔ ہماری حکومتیں اور ادارے ظالم اور نالائق ہو سکتے ہیں، لیکن اتنے قابل نہیں کہ ایسا کر سکیں۔ اگر وہ اتنے قابل ہوتے تو آج ہم سپر پاور ہوتے۔

انقلابی شلواریں چھوڑ کر بھاگ گئے اور، سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی احتجاج پر کڑی تنقید

اگر پی ٹی آئی کے اعداد و شمار کو مان لیا جائے کہ فائرنگ میں تین سو لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو پھر اس سطح کی فائرنگ اور وہاں موجود ہزاروں ورکرز کے ساتھ کم از کم پانچ ہزار افراد زخمی ہونے چاہئیں۔ اگر حکومت نے لاشیں غائب کر دی ہیں تو ان مظلوم زخمیوں کو سامنے لایا جائے اور ظالم حکومت کے اس بڑے ظلم پر پوری قوم کو متحد ہو کر ایسا احتجاج کرنا چاہیے کہ یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے۔

جب آپ غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہیں تو حکومت کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اسے جھوٹ قرار دے کر بچ نکلے۔ میں نے صحافت سے ایک بات سیکھی ہے کہ اگر آپ کا ایک فیصد بھی فیکٹ غلط ہو تو آپ کا 99 فیصد سچ بھی جھوٹ ثابت ہو جائے گا۔

غلط اعداد و شمار دے کر آپ ان ورکرز کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں جنہوں نے جانیں دیں اور تین سو لاشوں کے بوجھ تلے غائب ہوگئے ہیں۔ ان مظلوموں کا ذکر تک نہیں کر رہے۔ آپ غلط اعداد و شمار دے کر حکومت اور اداروں کا کام آسان کر رہے ہیں۔

Related Posts