عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کو 20 سال گزر گئے ہیں تاہم 9 اپریل 2003 کو بغداد کے سقوط کے بعد سے لے کر امریکی افواج کی گرفت میں آنے کے درمیانی عرصہ کے دوران صدام حسین کی زندگی کی کچھ تفصیلات اب تک خفیہ رکھی گئی ہیں۔
العربیہ کے مطابق دنیا کے سامنے اپنی غیبوبت کے اس عرصہ کے دوران صدام حسین گھروں اور شہروں کے درمیان چھپنے پر مجبور رہے اور حتی کہ انہوں نے اپنے کچھ محافظوں کو بھی چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں بھی کیں۔
صدام کے دفاع کے سابق سربراہ ڈاکٹر خلیل الدلیمی نے انکشاف کیا کہ سقوط بغداد کے بعد کے دور کو صدام کی پوشیدگی کا دور کہا جاتا ہے۔ مرحوم صدر نے 11 اپریل کو بعض رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں کہا تھا کہ وہ ہلکے پھلکے ہتھیاروں کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار رہیں۔
ڈاکٹر خلیل الدلیمی نے العربیہ کو بتایا کہ صدام نے اپنے محافظوں اور ساتھیوں سے کہا کہ وہ اپنے الگ الگ راستے پر چلے جائیں۔ بہت کم عناصر کو چھوڑ کر وہ رمادی چلے گئے۔ وہاں وہ خربیط خاندان خاص طور پر شیخ مظہر خربیط کے پاس گئے۔
عراقی حکومت کے زوال اور اس قدر سرعت سے امریکی قبضہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ عراقی افواج کے درمیان غیر مساوی طاقت تھی جو فضائی احاطہ کے بغیر سپر پاورز سے لڑ رہی تھی۔
الدلیمی کے بقول امریکیوں نے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار استعمال کیے جس سے عراقی فوج نے اپنے سامنے ٹینکوں کو پگھلتے اور مائع میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ اس چیز نے عراقی فوجیوں کو خوف اور حیرانی میں مبتلا کردیا تھا۔
یاد رہے عراق کے سابق صدر تکریت کے ایک فارم میں چھپے ہوئے پائے جانے تک روپوش رہے تھے۔ پکڑے جانے کے بعد ان کے خلاف گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں ان کی حکومت کی طرف سے کیے گئے انسانی حقوق کے جرائم کے متعلق ایک مقدمہ چلایا گیا۔ اسی مقدمہ میں نومبر 2006 میں ان کو سزائے موت سنا دی گئی اور بعد ازاں اس پر عمل کرکے انہیں عین عید الاضحی کے دن پھانسی دی گئی۔