اجتماعی قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سوال: اگر حصہ کی قربانی ہو، تو گوشت وزن کر کے دینا ضروری ہے یا سب کی رضامندی سے اندازے کے ساتھ بھی گوشت تقسیم کر سکتے ہیں، نیز یہ بھی بتائیں کہ قربانی کا گوشت کیسے استعمال کرنا چاہئے؟

جواب: ایک جانور میں کئی حصہ دار شریک ہوں، تو آپس میں گوشت وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہے، اندازہ سے تقسیم نہ کیا جائے، اگرچہ حصہ دار ایک دوسرے کے لیے زیادتی کو حلال قرار دے دیں، اس لیے کہ اگر حصوں میں کمی بیشی ہوگی، تو سود ہوجائے گا، اور سود لینا، دینا اور کھانا سب حرام ہے، البتہ اگر گوشت کی تقسیم کرتے وقت قربانی کے جانور کے دیگر اعضاء مثلاََ: کلہ، پائے، کلیجی وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے، اور ہر ایک کے حصے میں ان چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ آجائے، تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا۔

جہاں تک قربانی کے گوشت کے استعمال کی بات ہے تو اس میں دو باتیں ہیں۔

اول:

شرعی نصوص کی روشنی میں حج یا عید کی قربانی میں سے صدقہ کرنا واجب ہے، چاہے تھوڑی سی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش  اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ، ہم نے اس جانور کو تمہارے لیے  مسخر کیا ہے، تا کہ تم شکر گزار بنو۔[الحج : 36]
آیت میں مذکور:  ” اَلْقَانِعَ ” سے مراد ایسا تنگ دست آدمی ہے جو قناعت اور عفت پسندی   کی وجہ سے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔

اور ” اَلْمُعْتَرَّ ” سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے۔

چنانچہ ان فقراء کا  حج کی قربانی میں حق ہے، یہ آیت اگرچہ حج کی قربانی کیلئے  ہے، لیکن عید کی قربانی کا بھی یہی  حکم ہے” انتہی
” الموسوعة الفقهية ” (6/115)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عید کی قربانی سے متعلق فرمان ہے کہ: (اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو، اور صدقہ دو) مسلم: (1971)

شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے،  اور یہی موقف  شرعی نصوص کی روشنی میں صحیح  معلوم ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا واجب ہے جس پر “صدقہ” کا لفظ صادق آ سکے؛ کیونکہ  قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مساکین کیساتھ رفق و نرمی کا اظہار ہو، چنانچہ اس بنا پر اگر کوئی شخص مکمل قربانی کا جانور خود ہی کھا جاتا ہے تو اسے کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا لازمی ہوگا جس پر صدقہ کا لفظ صادق آ سکے” انتہی
” روضة الطالبين وعمدة المفتين ” (3/223)

مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر قربانی کا مکمل جانور خود ہی کھا لے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس سے  اس کا صدقہ ادا ہو جائے” انتہی
” الإنصاف ” (6/491)

نیز بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” اگر قربانی کے تازہ گوشت میں سے کچھ بھی صدقہ نہ کرے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس پر صدقہ کا لفظ بولا جا سکے، مثلاً: ایک اوقیہ [تقریباً 200 گرام] صدقہ کرے”
” كشاف القناع ” (7/444)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا مکمل گوشت  پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے، اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“ان کا یہ عمل غلط ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا  فرمان ہے:
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
ترجمہ: تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دیے ہیں ، اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں ۔ [الحج : 28]

اس بنا پر ان کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ قربانی  کے ہر جانور میں سے کچھ نہ کچھ گوشت کے ضامن ہونگے، اس کیلئے گوشت خرید کر صدقہ لازمی کریں” انتہی
” مجموع فتاوى ابن عثیمین” (25/132)

دوم:

قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے یا نہیں؟ اہل علم کے ہاں  دو موقف ہیں، جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں سے کھانا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اور یہی موقف ائمہ اربعہ کا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے، چاہے تھوڑا سا ہی کھایا جائے؛ کیونکہ شرعی نصوص میں قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، ہمارا اور دیگر تمام علمائے کرام کا یہی موقف ہے، تاہم چند سلف صالحین سے  یہ منقول ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا بھی واجب ہے۔۔۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے، اور فرمانِ باری تعالی میں بھی کھانے کا حکم ہے: ۔( فَكُلُوا مِنْهَا) اس میں سے کھاؤ۔[الحج : 28] لیکن جمہور اہل علم نے اس حکم کو مندوب اور مباح کے حکم میں  شمار کیا ہے کیونکہ  یہ حکم  قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی ممانعت کے بعد دیا گیا ہے۔

Related Posts