اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی تخت کی خواہش کرتا ہے زمانہ اس کے ساتھ کبھی بھی رحم نہیں کرتا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے ہنگامہ خیز رہی ہے ، ملک کی غیر معمولی جمہوری کوششوں اور فوجی کنٹرول کے طویل عرصے کے نتیجے میں ملک کو قائم شدہ سیاسی روایات کے ساتھ حل کرنا تقریباً ناممکن نظر آیا۔
مائنس ون فارمولے کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر ملک میں حقیقی طاقت رکھنے والوں کیلئے ناقابل قبول بن جائے تو اسے یا تو عہدے ہٹادیا جاتا ہے یا پھر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تک “مائنس ون فارمولے” نے ہماری سیاسی تاریخ میں ایک یا دوسرے طریقے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارا گیا اور کبھی صحیح معنوں میں نافذ نہیں ہوا۔ سیاست دان بھی ماضی سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، جیسا کہ بہت سی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے یا تو غیر جمہوری اقدامات کی حمایت کی یا ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
کیا سابق وزیراعظم عمران خان فارمولے کا اگلا شکار ہوں گے؟ یہی سوال آج لوگوں کی اکثریت پوچھ رہی ہے، یہاں تک کہ خود عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں اس فارمولے کا ذکر کیا ہے، اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان پر بھی مائنس ون فارمولا لگایاگیا تو اُن کا کیا ردعمل آئے گا؟
مائنس ون فارمولہ کی اصطلاح سب سے پہلے بے نظیر بھٹو کے پہلے دور (1988-1990) کے دوران پرنٹ میں استعمال کی گئی تھی، جب کہ یہ خیال 1947 تک موجود تھا۔ ہم پرانی ایمبولینس میں جناح کے تباہ کن سفر کی تفصیلات میں نہیں جائیں گے، جو کہ 11 ستمبر 1948 کو اختتام پذیر ہوگیا تھا۔
مائنس ون آئیڈیا کے ماخذ کا پتہ لگانے کیلئے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے آغاز کرتے ہیں، وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے، جو کہ بابائے قوم کہ بعد عوام میں سب سے زیادہ مقبول اورپسندیدہ سیاست دان تھے۔
انہوں نے مائنس ون کی درجہ بندی کرنے کے لیے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ نتیجتاً انہیں 16 ستمبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی (باغ) گارڈن میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ عوام سے خطاب کر رہے تھے۔
فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے خلاف انتخاب لڑتے ہوئے اپنے خلاف بے شمار بہتان تراشی کا سامنا کیا۔انہوں نے ایسا اس لئے کیونکہ وہ ظلم کی سیاست کی سخت مخالف تھیں لیکن افسوس وہ اِس میں ہارگئیں اور انھیں مائنس ون کردیا گیا۔
اس فارمولے کے اگلے امیدوار ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان تھے۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ دونوں ہی قوم کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی سیاسی شخصیات ہیں۔
انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد مجیب قوم کے سب سے زیادہ پیارے لیڈر بن گئے تھے۔ اس کے “مائنس ون” نے قوم کے خاتمے کا خطرہ مول لیا۔ جوا کھیلا گیا۔ مجیب کو اس لیے ختم کر دیا گیا کیونکہ وہ عوام کی طرف سے بہت زیادہ پسند کیا گیا تھا کہ اسے بچایا جائے۔ پاکستان کا ٹوٹنا اس مائنس ون کی بھاری قیمت تھی۔
اگرچہ 90 کی دہائی میں بھی ملک کے حقیقی حکمرانوں نے بے نظیر اور نوازشریف کو چارر اقتدار سے بے دخل کیا لیکن انہوں نے مائنس ون کا راستہ مکمل طور پر اختیار نہیں کیا۔
بے نظیر حکمرانی کے اپنے خوفناک ریکارڈ کے باوجود مقبول رہیں، اس لیے طاقت کے مرکز کے لیے ناقابل قبول تھیں۔ آخر کار دسمبر 2007 میں انھیں قتل کردیا گیا اور اس طرح فارمولے کا استعمال کرکے ایک اور سیاستدان کو راستے سے ہٹادیا گیا۔
یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ نے بنایا اور تیار کیا، مائنس ون کا شکار ہو گا لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا ہی تھا۔
تو کیا مائنس ون فارمولے کا اگلا ہدف عمران خان ہیں؟ عمران خان بلاشبہ مقبول ترین رہنما اور ملک کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اور عمران خان پر مائنس ون تھپڑ مارنے کا نتیجہ شیخ مجیب کے تجربے جیسا سنگین ہو سکتا ہے۔
تو کیا مائنس ون فارمولے کا اگلا ہدف عمران خان ہیں؟ عمران خان بلاشبہ مقبول ترین رہنما اور ملک کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی جماعت کے سربراہ ہیں۔اس لئے اگر عمران خان پر اگر یہ فارمولا آزمایا گیا تو اس کا نتیجہ شیخ مجیب سے بھی زیادہ سنگین ہوگا۔