گزشتہ دن اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور سپریم کورٹ جانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرنا پڑا۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے میں سپریم کورٹ سے اس کیس میں اپنے فیصلے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مظاہرے کی قیادت جے یو آئی کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری، قاضی عبدالرشید، جماعت اسلامی کے میاں محمد اسلم اور اجمل بلوچ نے کی۔ پولیس کے ساتھ تصادم کے باوجود مظاہرین سپریم کورٹ کی عمارت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے آنسو گیس کے متعدد گولے داغے تاہم مظاہرین ڈٹے رہے۔
ختم نبوت تحریک کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے 7 ستمبر کی ڈیڈ لائن جاری کر دی۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں 24 جولائی کے فیصلے سے بعض حصوں کو ہٹانے کے لیے پنجاب حکومت کی فوری درخواست پر 22 اگست کو سماعت مقرر کی ہے، آئیے جانتے ہیں یہ مبارک ثانی کیس ہے کیا؟
مبارک ثانی کیس کیا ہے؟
6 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے قادیانی جماعت کے مبلغ مبارک احمد ثانی کی سزا کو کالعدم قرار دیا، جنہیں 2019 میں پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) (ترمیمی) ایکٹ کے تحت ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ جس جرم کے لیے ثانی کو سزا سنائی گئی، وہ اس قانون کے بننے سے پہلے کا ہے، جس کے مطابق انہیں سزا دی گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے بعد ازاں اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف 9، جو آئین کے آرٹیکل 20 سے متعلق ہے، میں ترمیم کی جائے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس شق کے تحت جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہ مطلق نہیں ہیں اور انہیں قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے ساتھ متوازن ہونا چاہیے۔
مبارک احمد ثانی ایک قادیانی مبلغ ہیں، ان کے خلاف اس الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک مذہبی تقریب میں تفسیر قرآن کے نام پر قادیانی مذہب کی ایک کتاب تقسیم کی، جو قرآن کی توہین ہے۔
اس کیس کے تحت بعد ازاں کارروائی آگے بڑھی، آخرکار سپریم کورٹ نے لوئر کورٹس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر مبارک ثانی کو الزامات سے بری کردیا تھا، جس پر مذہبی طبقے میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔