حکومت قیامِ امن میں ناکام، پارا چنار میں کیا ہورہا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پارا چنار
(فوٹو: آن لائن)

خیبر پختونخوا کے شہر پارا چنار میں حکومت قیامِ امن میں مبینہ طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شہر میں فرقہ وارانہ تشدد عروج پر کیسے پہنچا؟ پارا چنار میں کیا ہورہا ہے؟

حال ہی میں مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پارا چنار میں وہ قوتیں فتنہ برپا کر رہی ہیں جنہیں امن کی جگہ جنگ کی ضرورت ہے جبکہ کرم ایجنسی میں بسنے والے لوگ امن پسند ہیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس کا بیان

چیئرمین مجلس وحدت المسلمین نے ہفتے کو نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو کرم ایجنسی میں منشیات کے اڈے ہیں اور نہ ہی اسلحے کی فیکٹریاں۔ پر تشدد واقعات میں 12 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کے قیام میں ناکام ہیں۔

سینیٹر راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ بلا تاخیر روکی جائے۔ ہم پارا چنار میں مکمل امن چاہتے ہیں۔ ضلع کرم جنگ کی آگ میں جل رہا ہے۔ کرم ایجنسی کے لوگوں پر یہ جنگ زبردستی مسلط کی گئی تھی۔

واقعے کے حقائق

گزشتہ روز تک کے اعدادوشمار کے مطابق 4روز میں ضلع کرم کے شہر پارا چنار میں قبائلی تصادم کے نتیجے میں 30افراد جاں بحق جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ مین اسٹریم میڈیا نے علاقے کی کشیدہ صورتحال سے صرفِ نظر کیا اور واقعات کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔

تاہم سوشل میڈیا پر عوام نے متعدد واقعات کے متعلق تفصیلات شیئر کیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پارا چنار افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جہاں سنی شیعہ تصادم معمول کی بات بنتی جارہی ہے۔ آج سے 5روز قبل شروع ہونے والا تصادم 6 مختلف علاقوں میں پھیل چکا ہے۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق تصادم کی وجہ 2 قبیلوں میں زمین کا تنازعہ ہے جن میں سے ایک سنی اور دوسرا شیعہ ہے، اس لیے دونوں ہی فرقوں کے مسلمان اپنے اپنے فرقے کی حمایت کیلئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق متنازعہ زمین مختلف قبائل کی مشترکہ ملکیت ہے۔

Related Posts