غزہ کی پٹی کے مستقبل کی راہ میں حائل کئی رکاوٹوں کے باوجود مصر نے غزہ کے لیے اپنے جامع منصوبے کا اعادہ کیا ہے۔ مصر کی طرف سے یہ عزم ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اقوام متحدہ نے غزہ کی تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت کا تخمینہ لگایا ہے۔
مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے وضاحت کی کہ قاہرہ نے غزہ میں جلد بحالی اور تعمیر نو کے لیے ایک جامع کثیر الجہتی وژن تیار کیا ہے۔
بدھ کو وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اپنے بلغارین ہم منصب جارج جارجیو کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین کے ممالک سے غزہ کے حوالے سے قاہرہ کی کوششوں کی حمایت پر زور دیا۔
خیال رہے کہ مصر نے متعدد بار کہا ہے کہ اس کے پاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کے منصوبے کے جواب میں متبادل منصوبہ ہے۔
مصری تجویز میں غزہ کے اندر “محفوظ زون” کا قیام شامل ہے جہاں فلسطینی عارضی طور پر رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تجویز میں مصری اور بین الاقوامی کمپنیاں پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو ہٹا کر دوبارہ آباد کریں گی۔
اس کوشش میں شامل مصری حکام کے مطابق مجوزہ منصوبے میں غزہ میں فلسطینی انتظامیہ کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ مصر کی تجویز کے مطابق غزہ کے لیے ایک ایسی انتظامی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی سے منسلک لوگ شامل نہ ہوں۔
حکام کے مطابق مصری منصوبے میں تین مرحلوں میں پٹی کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں پانچ سال لگیں گے۔ تجویز میں غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کے بغیر اس کی تعمیر نو پر زور دیا گیا ہے۔
اس نے ابتدائی چھ ماہ کی “ابتدائی بحالی کی مدت” کے دوران فلسطینیوں کی منتقلی کے لیے غزہ کے اندر تین “محفوظ علاقوں” کو بھی نامزد کیا ہے۔ ان علاقوں میں موبائل گھروں اور پناہ گاہوں کے قیام کے ساتھ انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔
تجویز کے مطابق بیس سے زیادہ مصری اور بین الاقوامی کمپنیاں ملبہ ہٹانے اور غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں حصہ لیں گی۔
خبر رساں ادارے’اے پی‘ کے مطابق مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے حکام اس مصری تجویز پر اس ہفتے ریاض میں ہونے والی ایک میٹنگ میں بحث کریں گے۔ اس کے بعد 4 مارچ کو یہ منصوبہ ہنگامی عرب سربراہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
غور طلب ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے انکار پر ایک سے زیادہ بار زور دیا ہے۔