رمضان المبارک کے روحانی و معاشرتی اثرات اور اہمیت کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جن عبادات کے کرنے کا حکم دیا ہے ان کا مقصد محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص حرکات کی صورت میں چند رسومات کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ ان سب میں انسانی جسم و روح کی اصلاح اور بالیدگی کا ایک تصور کارفرما ہے۔

ان میں روحانی و مادی ہر دو اعتبار سے ایک فکر اور فلسفہ کارفرما ہے۔ ان سے کچھ مقاصد وابستہ ہیں جن کی تکمیل سے خالق کائنات اپنی شاہکار تخلیق انسان کی خاص نہج پر تربیت کرکے اسے مقامات علیا پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ اس شہباز فطرت کو عالم ناسوت سے نکال کر عالم لاہوت و ملکوت میں محو پرواز کرنے کے لئے اس کے ظاہر و باطن کی تطہیر اور تزکیہ اولین شرط ہے۔ اس لئے خلّاقِ عالم نے اپنی قدرتِ تخلیق کے اس شاہکار کو نظام عبادات کی صورت میں ایک ایسا تربیتی نظام دیا ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ الوہی نظام عبادت کے عناصر میں سے روزہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل میں روزے کے روحانی اور سماجی و معاشرتی اثرات کے حوالے سے چند معروضات درج کی جارہی ہیں تاکہ قارئین رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں ان میں غوروفکر اور عمل کے ذریعہ سے کماحقہ روزے کے ظاہر و باطنی آداب کو پورا کرکے اس کی حقیقی روحانی برکات سے لطف اندوز ہوسکیں اور انعامات ربانیہ کے حق دار قرار پاسکیں۔

روزے کی روحانی حکمتیں اور ثمرات

ایک زمیندار جب کھیت میں بیج بوتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد زمین سے نرم و نازک اور ملائم کونپلیں نکلتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین میں کچھ خود رو جڑی بوٹیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو فصل کی افزائش میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ چنانچہ زمیندار گوڈی کرکے ان کو نکال دیتا ہے۔ اس طرح زمین کی افزائشی صلاحیت پوری طرح سے بیج کی طرف متوجہ ہوتی ہے نتیجتاً فصل عمدہ، بہتر اور نسبتاً زیادہ بھی ہوتی ہے۔ بلاتشبیہ و بلامثال سال بھر میں ایک مہینہ کے روزے نفس انسانی میں پیدا ہوجانے والی روحانی امراض غفلت، ریاکاری، غرور وتکبر وغیرہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ روزے روح کی تقویت اور اخلاق فاضلہ و اعمال صالحہ کی ادائیگی اور ان کی لذت و کیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

ریاکاری کے جذبہ کی نفی

نماز، زکوٰۃ، حج اور دیگر عبادات اپنا ایک ظاہری وجود رکھتی ہیں۔ جن کی ادائیگی سے اکثر اوقات انسان کے اندر دکھلاوا اور ریاکاری کے جذبات بھی فروغ پانے لگتے ہیں، یوں ان سے اخلاص ایسی نعمت جو مقصود عبادت ہے، جاتی رہتی ہے مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس سے ریاکارانہ جذبات کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ کوئی طریقہ ہے جس سے روزہ دار کسی کو دکھاسکے کہ وہ روزے سے ہے۔ پس یہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔

احساس بندگی اور حاکمیت الہٰیہ

بندے کو اس جوادِ مطلق نے طرح طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن سے وہ فائدہ اٹھاتا اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ خوردونوش سے متعلقہ نعمتوں سے جب چاہتا ہے اپنے ذوق طعامی کی تسکین کرتا ہے مگر روزہ ایک ایسا عملِ عبادت ہے کہ انواع و اقسام کی نعمتیں، مشروبات و ماکولات اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں، کوئی روکنے والا بھی نہیں ہوتا لیکن روزہ دار محض اپنے رب کی بندگی کے احساس، اس کی تابع فرمانی اور اس کی خوشنودی کی خاطر غروب آفتاب تک بھوک، پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے قلب و نظر اور فکرو احساس پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت یوں غالب ہوتی ہے کہ وہ غروبِ آفتاب سے ایک لمحہ پہلے بھی کچھ کھانے پینے کو اس حاکم مطلق کی نافرمانی سمجھتا ہے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ سرافگندگی کے جذبات سے اس لمحہ خیر کا انتظار کرتا ہے کہ جب وہ لذت و فرحت افطار سے شاد کام ہو اور اس منعم حقیقی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس کی بارگاہ میں کلمہ شکر ادا کرے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو روزے کا مقصود اصلی ہے اور جسے ہر مسلمان کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے کہ انسان اس دنیا میں آتے ہی ایسا روزہ رکھے کہ اس کی افطاری اس کے سفر حیات کے اختتام پر دیدار الہٰی کے ساتھ ہو۔

اخلاق صالحہ کی افزائش

روزے کو اللہ رب العزت نے تزکیہ نفس اور تقویٰ کا عمل قرار دیا ہے۔ حقیقت واقعی یہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینہ میں آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے اس کے روزے رکھ لے تو پھر اس کی برکات سے بندہ مومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل و برداشت، عبادت و ریاضت ایسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جو پورا سال انسان کو بادیہ ضلالت میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سایہ میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے۔

روزے کے سماجی و معاشرتی اثرات

انسان معاشرے کی ایک اکائی ہے، بہت سے انسان ملتے ہیں تو ایک کنبہ وجود میں آتا ہے۔ بہت سے کنبے ملتے ہیں تو قبیلہ بنتا ہے اور متعدد قبائل ملتے ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جس میں امیر غریب، کمزور و طاقتور، زبردست و زیردست، حاکم و محکوم، صحیح و سقیم ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور باہم مل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسباب معاش میں فرق ہونے کی وجہ سے ان کے سماج میں بھی نمایاں فرق اور تفاوت پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم توازن جنم لیتا ہے۔ بہت سے لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں، انہیں اپنے مال و اسباب کی بھی خبر تک نہیں ہوتی مگر ایسے لوگوں سے عددی اعتبار سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔

اسلام کے عطا کردہ نظام عبادت میں جہاں ہر مسلمان کے لئے انفرادی طور پر عبادت و بندگی کے ذریعہ قرب خداوندی پانے کا حکم ہے وہاں اجتماعی طور پر پورے معاشرے میں بندگی و عبادت کے عملی اظہار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جس سے افراد معاشرہ میں ممکنہ حد تک توازن پیدا ہو اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ جس میں ہر مسلمان خودی و خودداری کے مستحسن احساس کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اس حوالے سے روزے کے چند اہم سماجی و معاشرتی اثرات مختصر نکات کی صورت میں ملاحظہ ہوں:

1۔ روزہ رکھنے سے اہل ثروت کے دلوں میں اکثر فاقہ سے رہنے والے دوسرے انسانوں کے لئے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ روزہ کی صورت میں عملی طور پر بھوک اور پیاس کے تجربہ سے گزر رہے ہوتے ہیں۔

2۔ بھوک اور پیاس کا یہ تجربہ انہیں غریبوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کی مدد پر ابھارتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں جواد و کریم آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت موسلا دھار بارش کی مانند ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں یوں تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے مگر ماہ رمضان میں جب جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو عام دنوں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ (ظاہر ہے کہ یہ سخاوت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی امت کے غرباء پر ہی تھی)۔

3۔ ماہ رمضان میں بالعموم لوگ صدقہ فطر کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور عام صدقہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ایک طرف دلوں سے دنیا کی محبت نکلتی ہے تو دوسری طرف صدقہ و زکوٰۃ کی ان رقوم سے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مالی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں معاشی عدم توازن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میں صدقہ و خیرات کی رغبت دلاتے ہوئے اس کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔

4۔ روزہ رکھنے سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے افراد کے اندر اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

5۔ ماہ رمضان میں سحری و افطاری کی اوقات کار کے مطابق انجام دہی وقت کی پابندی کا درس ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی و عروج کی منزل نشیں ہوتی ہیں جو وقت کی قدر کو پہچانتی ہیں اور اپنے فرائض کو وقت پر ادا کرتی ہیں۔

6۔ ماہ رمضان میں معاشرے کی اخلاقی، قانونی، تہذیبی اور اجتماعی اصلاح کی فضا پیدا کرتا ہے۔ مسلم معاشرے کے تمام افراد کے اندر زبردست جماعتی احساس پیدا کرتا ہے۔

7۔ روزہ امت مسلمہ میں ایک عالمگیر برادری کے احساس کو پختہ کرتا ہے۔

8۔ نسلی اور طبقاتی تفاخر کو ختم کرنے میں روزہ اہم ترین کردار ادا کرتا ہے کہ جب افطاری کے وقت امیر و غریب سب ایک دستر خوان پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر خوشی و مسرت کی فضا میں روزہ افطار کرتے ہیں۔

9۔ روزہ معاشرے میں رہتے ہوئے روزہ داروں کو ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس بھی دلاتا ہے اور پھر تکلیف میں مبتلا دوسرے بھائی کو اس سے نجات دلانے کے لئے اس کی مدد کرنے کے جذبات کو ابھارتا ہے۔

Related Posts