ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی روئی کی محتاط خریداری ،کاروباری حجم مثبت رہا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Weekly Cotton Market Review

کراچی :چیئرمین کراچی کاٹن بروکرز فورم نسیم عثمان کا کہنا ہے کہ روئی کے بھاؤ میں مندی کا تسلسل جاری ہے، کوروناکے خوف سے ٹیکسٹائل ملز مقامی اور درآمدی روئی خریدنے سے اجتناب برت رہی ہیں۔

کپاس کی فصل بڑھانے کیلئے حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں کی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔ کپاس کے کاشتکار دیگر فصلوں کی طرف مائل ہوگئے تو انہیں واپس لانا ناممکن ہوجائیگا۔

کاٹن مارکیٹ کی ہفتہ وار جائزہ رپورٹ کے مطابق مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی روئی کی محتاط خریداری جاری رہی جبکہ جنرز بھی ہر بھاؤ پر روئی فروخت کرنے میں دلچسپی لے رہے تھے جس کے باعث کاروباری حجم مثبت رہا ۔

روئی کے بھاؤ میں 200 تا 300 روپے کی مندی رہی دراصل ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کورونا کی دوسری لہر کو مد نظر رکھتے ہوئے روئی کی خریداری کررہے ہیں دوسری جانب روئی کی درآمد بھی نسبتاً محدود کردی ہے اس وجہ سے فی الحال مارکیٹ کا رخ تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے توانائی کی مد میں مراعات کے اعلان کے بعد مثبت اثرات مرتب ہونے لگے ہیں، خصوصی طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر کا حب فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی کئی ملز دوبارہ بحال ہونے لگی ہے۔

پاور لومز بند پڑے ہوئے تھے وہ زور و شور سے چلنے لگے ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور پاور لومز کے مزدور کم پڑگئے تقریبا 2 لاکھ کاریگروں کی کمی بتائی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ 1990 کی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر بحال ہوگیا ہے۔

ان خبروں کے سبب مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کی طلب میں اضافہ ہونے کی صورت میں بھاؤ میں اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس ہورہا ہے۔کاٹن کے درآمد کنندگانوں کا کہنا ہے کہ ملک کی ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز نے تاحال بیرون ممالک سے کپاس کی تقریبا 30 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرلئے ہیں ۔

اپٹماکے ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سال ملک میں کپاس کی پیداوار تشویشناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے تقریبا 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑے گی جس کی مالیت تقریبا 3 ارب ڈالر لگائی جارہی ہے فی الحال ڈالر کے نسبت روپیہ مضبوط ہورہا ہے۔

آئندہ دنوں میں ڈالر 155 روپے کی نیچی سطح پر آنے کا امکان بتایا جارہا ہے اگر ڈالر مزید نیچے آئے گا تو روئی کے درآمد کنندگان ملوں کو فائدہ ہوسکے گا لیکن دوسری جانب ڈالر کی قیمت کم ہونے سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد پر منفی اثر پڑے گا۔

صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 8400 تا 9400 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3000 تا 4200 روپے جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 8900 تا 9500 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3600 تا 4600 روپے جبکہ صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 9000 تا 9100 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4500 تا 5000 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 200 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 9400 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چئیرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر ملا جلا رجحان رہا۔

نیویارک کاٹن مارکیٹ میں کاٹن کے وعدے کا بھاؤ کورونا کا وائرس دریافت ہونے کی اطلاع آنے کی وجہ سے بڑھ کر 71 امریکن سینٹ کی انچی سطح پر پہنچ گیا تھا لیکن بعد ازاں ریٹ جاگ کی طرح بیٹھ گیا اور ریٹ کم ہوکر فی پاؤنڈ 68.46 امریکن سینٹ کی سطح پر پھر آگیا USDA کی ہفتہ وار برآمدات میں 30 فیصد کے اضافہ سے بھی ریٹ میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا گو کہ اس مرتبہ بھی پاکستان سبسے بڑا خریدار سامنے آیا۔ برازیل، ارجنٹینا اور افریقہ وغیرہ میں روئی کا بھاؤ مجموعی طورپر مستحکم رہا جبکہ بھارت میں روئی کے بھاؤ میں معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

نسیم عثمان نے کہا کہ موجودہ سیزن میں روئی کی پیداوار تشویشناک حد تک کم ہوئی ہے اس کی بازگشت لگتا ہے کہ متعلقہ حکومتی اداروں میں سنائی نہیں دیتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت آئندہ سال کی فصل کے متعلق کوئی مثبت حکمت عملی نہ کی گئی اور معیاری بیجوں کا بندوبست نہ کیا گیا تو آئندہ سیزن میں بھی کپاس کی پیداوار کی صورت حال اس سے بھی خراب ہوگی کیوں کہ بیشتر کپاس کے کاشتکار بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہ دلبرداشتہ ہوکر آئندہ کپاس کی فصل اوگانے سے اجتناب کریں گے جس کا پاکستان کی پہلے ہی زبوحالی کا شکار معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا کیوں کہ ملک کی ٹیکسٹائل کی صنعت کیلئے بیرون ممالک سے بڑی تعداد میں روئی برآمد کرنی پڑے گی ۔

اس سال تو تقریبا تین ارب ڈالر کی مالیت کی روئی درآمد کرنی پڑے گی آئندہ سال اس سے بھی کم کپاس کی فصل ہوگی تو اس سے زیادہ زر مبادلہ ادا کرنا پڑے گا۔ہم نے گزشتہ ہفتہ کے تجزیہ میں کہا تھا کہ کپاس کی آئندہ سیزن کیلئے حکومت کے متعلقہ اداروں میں عدم دلچسپی نظر آرہی ہے۔

کپاس کے کاروبار سے منسلک اداروں کا خیال ہے کہ کپاس کی فصل کے متعلق عدم دلچسپی کی صورت حال رہی تو کپاس کے کاشتکار مجبورا دیگر فصلوں کی طرف مائل ہوجائیں گے پھر انہیں دوبارہ کپاس کی فصل کی طرف راغب کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائیگا۔

Related Posts