غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز نے منگل کو ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ غزہ میں جنگ کے خلاف اور قیدیوں کی واپسی کے حق میں دستخطی مہم کا حصہ بننے والوں کی تعداد صرف پانچ دن میں 100,000 سے تجاوز کر گئی ہے، لیکن بدھ کی صبح اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ یہ تعداد اب 110,000 سے بھی بڑھ چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کی ریزرو فورسز میں احتجاج کی شدت سرکاری اعلانات سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کے نتیجے میں فوج نے غزہ میں لڑائی کے علاقوں میں تعینات ریزرو فوجیوں کی تعداد کم کرنے اور انہیں جاری کیے جانے والے احکامات (call-up orders) کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جن ریزرو فوجیوں نے احتجاجی عریضے پر دستخط کیے، ان کو برطرف کرنے کا فیصلہ سیاسی دباؤ کے تحت کیا گیا۔ آرمی چیف ایال زامیر کے اس فیصلے کہ فضائیہ کے وہ ریزرو اہلکار جو احتجاج کا حصہ تھے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے، اس کا الٹا اثر ہوا، یعنی مزید بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہوا۔
کئی سینئر افسران کا ماننا ہے کہ ریزرو فوجیوں کی اپنی مہم پر عدم اعتماد سے فوجی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ فوج اب ریزرو فورسز پر کم انحصار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ریگولر (نظامی) یونٹس کو غزہ بھیج رہی ہے لیکن ان یونٹس کو بھی اطاعتِ احکامات میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اسرائیلی فوجی سربراہ ایال زامیر نے حالیہ عوامی دباؤ اور ریزرو فوجیوں کے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فوج میں اختلاف رائے کی دراڑیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ انہوں نے زور دیا کہ ریزرو فوجیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سویلین حیثیت میں اور خدمت سے باہر کسی بھی موضوع پر جمہوری طریقے سے اظہارِ رائے کریں لیکن فوج کو احتجاج میں گھسیٹنا کسی فوجی یونٹ کے نام پر بولنا، یا اجتماعی طور پر بیانات دینا یہ سب کچھ “غیر جمہوری اور ناقابلِ قبول” ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایال زامیر نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جاری جنگ کا مقصد اسرائیل کا دفاع، قیدیوں کی بازیابی اور حماس کی شکست ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں اسرائیل نے تقریباً 3,60,000 ریزرو فوجی غزہ بھیجے۔ حالیہ دنوں میں 6037 افراد (فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ) نے 17 مختلف عریضوں پر دستخط کیے، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ قیدیوں کی واپسی کو جنگ کے خاتمے پر ترجیح دی جائے۔
22,500 شہریوں نے بھی 10 عرضداشتوں پر دستخط کیے، جن میں وزیر اعظم نتن یاہو پر الزام لگایا گیا کہ “وہ یہ جنگ ذاتی سیاسی مفادات کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں، نہ کہ قومی سلامتی کے لیے۔
یہ بغاوت نما احتجاج نہ صرف اسرائیلی فوج کے اندر ایک گہرے بحران کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ جنگ کے جواز اور قیادت پر اب خود اسرائیلی سوسائٹی میں بھی شدید سوالات اٹھنے لگے ہیں۔