امریکی فوج نے اپنے دفاعی نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک ہائپرسونک جوہری میزائل کے تجربے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ اقدام روس اور چین کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی ترقی کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔
ہائپرسونک میزائلز کی رفتار میک 5 (تقریباً 24,000 کلومیٹر فی گھنٹہ) سے زائد ہوتی ہے، جس کی بدولت یہ روایتی میزائل ڈیفنس سسٹمز کو ناکام بناتے ہیں۔ ان میزائلوں کی غیر متوقع پرواز کے راستے ان کی روک تھام کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
ہائپرسونک میزائل محض 30 منٹ میں دنیا کے کسی بھی مقام کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جس سے جوابی کاروائی کے وقت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ نے اس ٹیکنالوجی کی تحقیق و ترقی میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ حریف ممالک کے مقابلے میں تکنیکی برتری حاصل کی جا سکے۔
روس پہلے ہی اپنے ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل کی کامیاب آزمائش کر چکا ہے، جو جوہری وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح، چین نے بھی اپنی ہائپرسونک گلائیڈ وہیکلز کے متعدد تجربات کیے ہیں۔
امریکی فوج کے اس متوقع تجربے کو دنیا بھر، خصوصاً روس اور چین، کی گہری توجہ حاصل ہوگی۔ یہ تجربہ دنیا بھر میں جدید فوجی ٹیکنالوجی کی دوڑ کے سلسلے کا حصہ ہے، جہاں ریاستیں مصنوعی ذہانت، سائبر جنگ، اور خلائی نظام جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔