افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کردیےگئے جس کے مطابق آئندہ 14 ماہ کے دوران امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی جبکہ القاعدہ اور داعش پر پابندی ہوگی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مقامی ہوٹل میں افغان امن معاہدے پردستخط کی تقریب ہوئی ، افغان طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکاکی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔
معاہدے کے تحت آئندہ 14 ماہ کے دوران امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی جبکہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دیگر تنظیموں کے نیٹ ورک پر پابندی ہوگی۔
معاہدے کے تحت دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی اور فریقین جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
دوحہ کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی معاہدے کی دستخط کی تقریب میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت 50 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قطر کی حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کیا جس سے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کا خاتمہ اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں حالات بہترہوئے ہیں اور 2020 کا افغانستان 2001 کے افغانستان سے مختلف ہے، افغان شہری بغیرخوف کے جینے کا حق رکھتے ہیں،
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغانوں نے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، امریکا تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنی توجہ مرکوز کریں، افغانستان کے تمام طبقوں کی آواز سننے کے نتیجے میں ہی پائیدار استحکام ممکن ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نےکہا کہ تاریخی مذاکرات کی میزبانی پر امیرِ قطر کے شکرگزار ہیں، طالبان اور امریکا کے درمیان امن ڈیل سے افغانستان میں امن قائم ہوگا، اگر طالبان نے امن معاہدے کی پاسداری کی تو عالمی برادری کا رد عمل مثبت ہوگا۔
تقریب سے خطاب میں افغان طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی بردار نے کہا کہ ہم اس معاہدے کی پاسداری کیلئے پرعزم ہیں، مذاکرات میں سہولت کارکاکرداراداکرنےپرپاکستان کاخصوصی شکریہ اداکرتےہیں اور امن کیلئے پاکستان کے کردارکے معترف ہیں۔
ملا برادر نے کہا کہ چین ،ایران سمیت دیگرممالک کابھی شکریہ اداکرتےہیں، ہم تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، تمام افغان گروپس کو کہتا ہوں کہ ایک مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اکٹھے ہوں۔
معاہدے کے نتیجے میں کابل حکومت اور طالبان میں بات چیت ہونے کی توقع ہے جو اگر کامیاب ہوئے تو افغان جنگ بالآخر اختتام پذیر ہوجائے گی، معاہدے سے افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی اور 17 ہزار نیٹو فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔