10 جولائی 2024 میں وائٹ ہاؤس سے امریکہ اور جرمنی کی طرف سے جرمنی میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تنصیب پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا، اس دوران واشنگٹن میں نیٹو سربراہی اجلاس جاری تھا۔
اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان ہوئے معاہدے کے تحت امریکا 2026 میں جرمنی میں اپنی ملٹی ڈومین ٹاسک فورس کی طویل فاصلے تک فائر کرنے کی صلاحیتوں کی مرحلہ وار تنصیب شروع کرے گا، تاکہ مستقبل میں ان صلاحیتوں کو دیرپا رکھا جاسکے۔ منصوبے کے مطابق مکمل طور پر تیار ہونے کے بعد ان روایتی لانگ رینج فائر یونٹس میں SM-6، Tomahawk، اور جدید ترین ہائپرسونک ہتھیار شامل ہوں گے، جو ایک وسیع رینج کے حامل ہوں گے۔
درمیانی فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے خاتمے کے معاہدے (INF ٹریٹی) سے امریکی دستبرداری نے یورپ کے علاوہ خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسیفک خطے میں سیکورٹی کا نظام شدید متاثر کر دیا ہے۔ صورتحال اس وقت پیچیدہ ہو گئی جب امریکا نے اپنے کمزور اتحادیوں کی سرزمین پر میزائل دفاعی نظام نصب کرنا شروع کر دیا۔
امریکہ اور جرمنی کے اس معاہدے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ امریکا نے ایک بار پھر سرد جنگ کا آغاز کر دیا ہے، چنانچہ اس حوالے سے عالمی سطح پر بحث چھڑ گئی ہے۔ دوسری طرف نیٹو سربراہی اجلاس 2024 نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس کے جملہ ارکان یوکرین کی سلامتی کے لیے متحد ہیں۔ یوکرین نے نیٹو میں شمولیت کی خواہش کی پاداش میں روس کے ہاتھوں تاریخی تباہی کا سامنا کیا ہے۔ مگر بات صرف یوکرین تک محدود نہیں، کئی دیگر ممالک نے بھی ’’دفاعی کارروائیوں‘‘ کے نام پر امریکی قیادت میں تباہی دیکھی ہے، جس کا دائرہ افغانستان سے فلسطین تک پھیلا ہوا رہے۔ امریکا اور مغربی فوجی اتحاد (نیٹو) کے زیر چتر دنیا بھر میں ہونے والی جنگ و جدل کی تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب دنیا کی یک قطبی حیثیت کا دفاع کرکے درحقیقت اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ ممالک نے “دفاع اور سلامتی” یا “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے نام پر تباہی دیکھی ہے، یہ بجائے خود ریاستی دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ امریکی جرمنی معاہدہ “نیٹو کے لیے امریکی وابستگی اور یورپی مربوط ڈیٹرنس میں اس کے تعاون کے لیے ایک قدم ہے۔” ہتھیاروں کو d2 ملٹی ڈومین ٹاسک فورس (MDTF) کی کمان کے تحت نصب کیا جائے گا جس کا ہیڈ کوارٹر مینز-کاسٹل، جرمنی میں ہے، جو یو ایس آرمی کی 56 ویں آرٹلری کمانڈ کے حصے کے طور پر ہے جو یورپ-افریقہ میں امریکی فوج کی قیادت کرتی ہے۔ اسے 2021 میں بحال کیا گیا۔ 1991 میں اس کے ختم ہونے کے تقریباً تیس سال بعد۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مختلف ممالک میں امریکی مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تنصیب پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، جن پر حال ہی میں اسٹریٹیجک میزائل ڈیفنس کے معاہدے کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ خاص طور پر ایشیائی خطے میں بالخصوص اس کے جنوب مشرقی، مشرقی اور شمالی حصوں میں سرگرم ہو گیا ہے۔ امریکہ اپنی پالیسی روس سے مختلف طریقے سے چلاتا ہے کیونکہ اسے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ اپنے ذاتی اہداف کے حصول میں خاص طور پر چین پر قابو پانے کے لیے آسیان کا اتحاد توڑنا چاہتا ہے۔”
جرمنی کے علاوہ امریکہ نے ڈنمارک اور فلپائن میں بھی میزائل سسٹم نصب کر رکھا ہے، جس کا مقصد بالترتیب روس اور چین کو نیچا دکھانا ہے۔ 2024 کے اوائل میں امریکہ نے فلپائن میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم کی تنصیب کی، یہ ایشیا پیسیفک کے علاقے میں اپنی نوعیت کی پہلی تنصیب تھی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے اس عمل کو خطے میں امن و استحکام کو خطرے میں ڈالنے اور جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان سمیت مشرقی ایشیا کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور اسے بیجنگ کے لیے ایک سنگین اسٹریٹجک چیلنج کے طور پر یاد کیا ہے۔
امریکا کے اس اقدام سے چین کے سیاسی اور فوجی کنٹرول کے مراکز اور اس کی بہت سی اہم ترین دفاعی تنصیبات کراس ہیئرز میں ہوں گی۔ امریکی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے چین کو یا تو درمیانے فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے اپنے زمینی ہتھیاروں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا یا پھر اسے سمندری اور فضائی میزائل نظام کے میدان میں بہت مہنگے مقابلے کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے اہم اخراجات درکار ہوں گے جو مجموعی طور پر چین کی فوجی ترقی کے لیے پہلے سے اختیار کیے گئے منصوبوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا جواب دینے کے لیے ایسے مہنگے اثاثوں کی کوالٹی اور مقداری تعمیر کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ موبائل کمانڈ پوسٹس جو ایک جدید فضائی اور خلائی دفاعی نظام سے محفوظ ہیں۔ بہرحال خطے میں امریکی میزائلوں کی تنصیب سے DPRK کے جوہری میزائل پروگرام پر واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے درمیان مذاکرات کے امکانات پر منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔
ادھر روسی وزارت خارجہ نے امریکہ اور جرمنی کے مشترکہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس طرح کے میزائل سسٹم یورپ میں نمودار ہوئے، تو روس اس کا سخت جواب دے گا۔ روس نے اس طرح کے منصوبوں کو ایک “بدقسمتی” قرار دیا، جبکہ چین نے بھی ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کرنے کی گھنٹی بجا دی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی بالادستی والی یک قطبی دنیا کی حیثیت کیلئے اب سنجیدہ چیلنج پیدا ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا اپنی ’انتہائی غیر مستحکم پوسٹ INF پالیسی‘ جاری رکھتا ہے جس سے روس کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں گے تو روس بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ دریں اثنا روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ روس زمینی بنیاد پر درمیانے فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعیناتی پر اپنی پابندی پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان دو طرفہ اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا خاموشی سے مگر بڑی تیزی سے ایک بار پھر دنیا پر بالادستی کی سردجنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔