اسٹیو ویٹکوف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطی و یوکرین ہیں۔ یوں ان دونوں تنازعات کے حوالے سے وہ سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔
ان کی آمد و رفت پہلے صفحے کی خبر ہوتی ہے اور ان کا کہا عالمی میڈیا کی ہیڈ لائن ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر عسکری نوعیت کے بحران کوئی نئی چیز نہیں لیکن مذکورہ دونوں بحرانوں کی اہمیت یہ ہے کہ پچھلی امریکی حکومت نےان کے حوالے سے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔
ایک ایسا رویہ جس سے مشرق وسطی میں جنگ پھیلنے کا اندیشہ شدت اختیار کر گیا تھا جبکہ یوکرین کی نسبت سے ماحول اسقدر کشیدہ ہوگیا تھا کہ ایٹمی جنگ کے امکانات خطرناک حد کو چھو رہے تھے۔
جدید دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ نیٹو ممالک اپنی یوکرینی پراکسی کی مدد سے روس سے برسر پیکار تھے اور اس وقت کے امریکی صدر جوبائیڈن یہ طے کرکے بیٹھے تھے کہ سفارتکاری کا دروازہ صرف بند ہی نہیں لاک بھی رکھنا ہے۔
یہ دروازہ صرف لاک ہی کہاں تھا اس کے تو لاک میں گویا ایلفی بھی ڈال دی گئی تھی۔ یوں جو بھی اس دروازے کے کھولنے کی کوشش کرتا، ناکام رہتا۔ دنیا تیسری عالمی جنگ کے قریب ترین پہنچ گئی تھی اور امریکہ کا لبرل صدر تو جیسے اس کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا تھا۔
سو صورتحال کی یہ دھماکہ خیزی ہی تھی جس نے اسٹیو ویٹکوف کی اہمیت بہت بڑھا دی ہے۔ عالمی میڈیا کی جو توجہ انہیں حاصل ہے وہ اس سے قبل کسی بھی امریکی نمائندہ خصوصی کو حاصل نہیں رہی۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا رویہ جس قدر غیر ذمہ دارانہ تھا، ٹرمپ انتظامیہ امن کے لئے اتنی ہی فعال نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک اہم مثال دیکھئے۔
ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ روس یا سوویت یونین کے ساتھ امریکی بات چیت کی اولین صورت یہ ہوتی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت کسی تیسرے ملک میں ہوتی۔
اس بات چیت کے جتنے بھی ادوار ہوتے اسی تیسرے ملک میں ہوتے۔ اور اگر صورتحال کشیدہ نہ ہوتی تو بات چیت دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں چلتے اور مساویانہ چلتے۔کہ ایک رانؤنڈ ماسکو میں ہو رہا ہے تو اگلا راؤنڈ واشنگٹن میں۔ یعنی اس ضمن میں پروٹوکول کمپرومائز نہ کیا جاتا۔
مگر اس بار ایک مختلف چیز دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بات چیت کے باقاعدہ راؤنڈز سعودی عرب میں چل رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اسٹیو ویٹکوف دو بار ماسکو بھی جاچکے ہیں جبکہ کسی روسی ڈیلی گیشن یا نمائندے نے واشنگٹن کا تاحال کوئی دورہ نہیں کیا۔
ایسا نہیں ہے کہ ماسکو کو واشنگٹن میں کوئی دلچسپی نہیں یا روسی کوئی سرد مہری دکھا رہے ہیں بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے ماضی کی روایت کو توڑ کر یکطرفہ طور پر ماسکو کے دورے کر رہے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن کے سلسلے میں اس قدر سنجیدہ ہیں کہ وہ سفارتکاری کے روایتی پروٹوکول بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ صدر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے دو روز قبل یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ معاملات کے تصفیے میں پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
رعایت اللہ فاروقی کے دیگر کالمز پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ کہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم کا ترجمان کبھی بھی حریف ملک کے صدر کی سنجیدگی کی گواہی نہیں دیتا۔
بالعموم ترجمان دوسرے ملک کی قیادت سے متعلق بیانات میں صرف اچھی امیدوں کا ہی اظہار کرتے ہیں۔ اب امید ایسی چیز ہے جو پوری ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ سو دونوں میں سے جو بھی ہو ترجمان کے لئے اس میں شرمندگی کا سامان نہیں ہوتا۔ یوں صدر پیوٹن کے ترجمان پیسکوف کا بیان بھی ایک روایت شکنی ہے۔
روس اور امریکہ دونوں جانب سے ہونے والی روایت شکنیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں دنیا جس خطرناک صورتحال سے دوچار ہوئی تھی اس کا احساس دونوں مملک کو ہے اور دونوں ہی ممالک پوری سنجیدگی کے ساتھ باہمی تعلقات کو یوکرین جنگ سے قبل والی صورتحال تک ہی نہیں لے جانا چاہتے بلکہ شاید اس سطح پر پہنچانا چاہتے ہیں جہاں یہ تاثر ہی باقی نہ رہے کہ روس اور امریکہ دشمن ممالک ہیں۔
ایسا ہو پائے گا یا نہیں، اس حوالے سے یقین سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ مگر جب یہ دیکھا جائے کہ اپنے پہلے دور حکومت میں بھی ٹرمپ کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ روس اور امریکہ کی دشمنی کا تاثر محض پروپیگنڈہ ہے۔
روس ہم سے دشمنی کا خواہاں نہیں۔ تب ٹرمپ ایک غیر تجربہ کار صدر تھے سو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ڈیموکریٹک پارٹی اور لبرل میڈیا کی مدد سے نہ صرف یہ کہ ان پر پیوٹن کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا بلکہ ان کے خلاف اس ضمن میں باقاعدہ تحقیقات کا بھی آغاز کردیا گیا۔
اس بار ٹرمپ ایک بڑے منڈیٹ کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس نہیں پہنچے بلکہ ان کا ہر قدم واضح کر رہا ہے کہ وہ پچھلے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔
یوں وہ اپنے اس دس سال پرانے ایجنڈے پر تیزی سے پیش رفت کرتے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ وہ روس و امریکہ کی دوستی کی صورت نکلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماسکو ان پر اعتماد ہی نہیں کر رہا بلکہ ان کی سنجیدگی کی گواہی بھی دے رہا ہے۔
ان سطور کا آغاز ہم نے اسٹیو ویٹکوف کے ذکر سے کیا تھا۔ ویٹکوف نے گزشتہ روز امریکی صحافی ٹکر کارلسن کو ڈیڑھ گھنٹے کا تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔ یوں دنیا نے پہلی بار انہیں تفصیل سے سنا ہے۔
ان کے انٹرویو کا نصف حصہ مشرق وسطی جبکہ باقی حصہ یوکرین کی صورتحال سے متعلق ہے۔ یہ ایک غیر معمولی انٹرویو ہے جس میں بہت کچھ کنایوں میں کہا گیا ہے کہ معاملات ابھی تصفیے سے دور ہیں۔ مگر بہت کچھ بہت واضح بھی کہا گیا ہے۔
خیال تھا کہ ہم ان کی گفتگو کے کچھ اہم نکات کا تجزیاتی جائزہ لیں گے مگر کالم تو اس پس منظر کے بیان میں ہی پورا ہوگیا جس نے اسٹیو ویٹکوف کو غیر معمولی اہمیت دلا رکھی ہے۔ چلئے اگلے کالم میں جائزہ لیتے ہیں اس انٹریو کا۔