یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ دوسری قسط

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسی زمانے میں روس میں مغربی،  بالخصوص فرانسیسی ناولز کا ترجمہ شروع ہوا۔ خود دوستوئیسکی کی پہلی قلمی کاوش بھی ایک فرانسیسی ناول کا ترجمہ تھا جو اس نے کریمیا کی جنگ سے قبل کے دور میں صرف بیس برس کی عمر میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ پٹ گیا تو اس نے طے کیا کہ اب وہ خود اپنا ناول لکھے گا۔

چنانچہ وہ ابھی صرف 21 بائیس برس کا تھا اور انجینئرنگ کا طالب علم تھا جب اس نے اپنا پہلا ناول “غریب لوگ” لکھا۔ اس کا مسودہ اس نے ایک ایڈیٹر کو دیا تو اس نے حسب روایت اسے شائع کرنے سے قبل نقاد کی رائے لینی ضروری سمجھی۔

یہ نقاد کوئی اور نہیں بلکہ روسی نقادوں میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والا وسارین بیلنسکی تھا۔ جب اسے غریب لوگ کا مسودہ پڑھنے کو دیا گیا تو اس نے ایڈیٹر سے بہت ہی افسوس بھرے لہجے میں کہا: “حد ہے، اب تم مجھ سے اکیس برس کے طالب علم لونڈوں کے مسودوں پر بھی رائے مانگو گے ؟”

ایڈیٹر نے کہا: “میں تمہیں اسی کام کے پیسے دیتا ہوں۔ تمہاری طرف پہلے ہی میرا ایڈوانس جمع ہے، سو چپ چاپ پڑھ کر اپنی رائے دو۔”

بیلنسکی مسودہ گھر لے گیا اور اسی رات اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب پڑھنا شروع کیا تو پھر رک نہ سکا۔ صبح تک اس نے مسودہ ختم کرلیا تھا۔ 

 رعایت اللہ فاروقی کے کالم کی پہلی قسط پڑھیں:

یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ پہلی قسط

اور اس سے فارغ ہوتے ہی وہ گھر سے دوستوئیسکی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ صبح صبح دوستوئیسکی کے اپارٹمنٹ پہنچا۔ اور اس پر نظر پڑتے ہی اس کے گالوں پر تین روایتی روسی بوسے دے کر کہا: “نوجوان ! تم جینئس ہو۔”

دوستوئیسکی دنگ رہ گیا کیونکہ وہ بیلنسکی کے قد کاٹھ سے واقف تھا۔ بیلنسکی کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ اس کے باغیانہ خیالات کی وجہ سے روس میں اس کی تحریر کی اشاعت پر پابندی تھی لیکن پورے روس میں ایسا ایک بھی پڑھا لکھا انسان نہ تھا جو نہ چھپنے کے باوجود بیلنسکی کو نہ جانتا ہو۔

دوستوئیسکی کے اس پہلے ناول پر بیلنسکی نے جو رائے دی اس میں بالخصوص ایک جملہ دوستوئیسکی کا رشین ادب میں مقام واضح کرنے کو کافی ہے۔ اس نے لکھا کہ “یہ روس کا پہلا سوشل ناول ہے۔”

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فکر کی دنیا کے لیجنڈز کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے بیشتر لڑکپن میں ہی دنیا سے اپنا لوہا منوا لیتے ہیں۔ مثلا غزالی، شافعی، دوستوئیسکی اور ابو الکلام اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔

بیلنسکی کی رائے نے دوستوئیسکی کو راتوں رات سلیبریٹی بنا دیا تھا۔ مگر بہت جلد یہی بیلنسکی اس کی ایسی کی تیسی پھیرنے والا تھا کیونکہ بیلنسکی الحاد کی دعوت دیتا پھر رہا تھا اور دوستوئیسکی آنے والے وقت میں اپنی پوری فکر خدا کے تصور پر نہ صرف استوار کرکے سامنے لانے کو تھا بلکہ نفسیات کے معیار پر وہ یہ کام اتنی اعلیٰ شان سے کرنے والا تھا کہ جرمنی میں بیٹھے خدا کی موت کے دعویدار نطشے کو بھی بلبلانے پر مجبور کرنے کو تھا۔ ذرا سوچئے، کتنا طاقتور ہوگا وہ قلم جو فلسفی نہ ہوکر بھی اپنے عہد کے سب سے بڑے فلسفی کو واویلے پر مجبور کردے ؟

روس میں بغاوت کا لاوا پکنا شروع ہوا تو اس میں دو چیزیں نمایاں تھیں۔ ایک الحاد اور دوسرا مغربی فکر کی جانب رجحان۔ اس پکتے لاوے کو زار بھی محسوس کر رہا تھا۔ چنانچہ اس نے 1861ء میں 13 ملین روسیوں کو غلامی سے آزادی عطا کردی مگر صورتحال تبدیل نہ ہوئی۔

اسی پکتے لاوے کو ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی بھی دیکھ رہے تھے۔ فرق بس زاویہ نگاہ کا تھا۔ زار کو اپنا اقتدار ڈوبنے کا خطرہ درپیش تھا سو وہ اس کا تدارک کر رہا تھا جبکہ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کو خود روس کے ڈوبنے کا اندیشہ لاحق تھا سو وہ اس کے تدارک کے لئے سرگرم ہونے کو تھے۔ پھر ان دونوں کے سوچنے کا زاویہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ سمت دونوں کی تقریباً ایک ہے بس اینگل کا فرق ہے۔

مثلاً  ٹالسٹائی کے ساتھ چونکہ یہ سانحہ گزرا تھا کہ وہ صرف دو برس کا تھا جب اس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا، اور فقط 9 برس کا تھا جب باپ کے سائے سے بھی محروم ہوگیا تھا سو اس کی نفسیات پر “فیملی اور اجتماعیت” حاوی نظر آتی ہے۔

اس کا تمام لٹریچر خاندان اور اجتماعی سوچ کو آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔ مثلاً اس کے پہلے تین ناول ہی دیکھ لیجئے۔ اس کا پہلا ناول “بچپن” دوسرا “لڑکپن” اور تیسرا “نوجوانی” ہے۔ اس کے برخلاف دوستوئیسکی کو پہلا سانحہ تقریبا 24 برس کی عمر میں پیش آیا جب اس کے والد کو قتل کردیا گیا۔ پھر تقریباً اسی دور میں اسے سائبیریا کی سرد جہنم میں چار سال قید کا سامنا کرنا پڑا جس نے اسے یکسر تبدیل کردیا۔

یہ قید بھی بس یوں نہیں ہوئی تھی کہ اٹھایا اور سیدھا سائبیریا بھیج دیا بلکہ پہلے سزائے موت سنائی گئی۔ سزا پر عمل درآمد کے لئے ڈیتھ اسکواڈ بیچ چوراہے ٹریگر دبانے ہی لگا تھا کہ ایک ہرکارہ پیغام لایا کہ اس کی سزا ، سزائےموت سے سائبیریا کی قید میں تبدیل کردی گئی ہے۔

یہ ڈیتھ اسکواڈ والا دوستوئیسکی سے ڈرامہ رچایا گیا تھا جس کا مقصد اسے نفسیاتی طور پر تباہ کرنا تھا۔ یہ قید کا ہی دور تھا جس کی تنہائی نے اسے خدا کے بھی قریب کیا اور انسانی نفسیات پر غور کا موقع بھی فراہم کیا۔ چنانچہ دوستوئیسکی کے لٹریچر میں اجتماعیت نہیں بلکہ “فرد” کا کردار مرکزی ہے۔ اس کا ارتکاز اجتماعیت کے بجائے فرد پر ہے۔

ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی میں دوسرا فرق یہ ہے کہ ٹالسٹائی آفاقیت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا تصور یہ ہے کہ انسان کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنا تمام انسانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ وہ نیشنلزم کا تو قائل ہے مگر فکری امپورٹ ایکسپورٹ کے خلاف نہیں۔ چنانچہ جب وہ کسی غیر ملکی تصور کو مسترد کرتا ہے تو اس کا زور اس بات پر نہیں ہوتا کہ یہ ہمارے لئے ٹھیک نہیں، بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ انسانیت کیلئے نقصان دہ ہے جبکہ دوستوئیسکی فکری امپورٹ، ایکسپورٹ کے سخت خلاف ہے۔

وہ یورپین فکر و فلسفے کو پوری شدت سے مسترد کرتا ہے اور اسے روسیوں کے لئے ناقابل قبول ثابت کرنے کے بعد اسے خود یورپ کے لئے بھی زہر ثابت کرتا ہے مگر اہل یورپ کو اس سے بچنے کی تلقین نہیں کرتا۔ یعنی وہ اپنے مشورے صرف روسیوں کو دیتا ہے، آفاقیت کے چکر میں نہیں پڑتا۔

تیسرا فرق ان دونوں میں یہ ہے کہ ٹالسٹائی کے ہاں عورت مرکزی رول میں بھی نظر آتی ہے۔ اینا کرانینا تو ہے ہی شاہکار مثال مگر اس سے ہٹ کر بھی اس کے ہاں عورت اہم کردار کے طور پر نظر آتی ہے۔

اس کے برخلاف دوستوئیسکی کے ہاں عورت فقط مرد کی معاون ہے۔ اس کے ہاں عورت کا سماج میں کوئی مرکزی رول نہیں۔ اس نے اس پر کوئی مستقل بیان تو نہیں دیا لیکن اس کے لٹریچر میں عورت آپ کو مرکزی رول میں نہیں ملے گی۔ مگر ان دونوں کا عورت کے حوالے سے ایک مشترکہ پہلو بھی ہے بلکہ وہ پہلو پورے رشین ادب کا ہی نمایاں پہلو ہے۔

وہ یہ کہ یہ ناول میں عورت کا “ٹھرکیانہ” استعمال نہیں کرتے جو مغربی ادب کا سب سے نمایاں خاصا ہے اور دونوں ہی جگہ اس کے پیچھے باقاعدہ فکری محرک موجود ہے۔ مغربی ادیب عورت کا رومانس کے نام ٹھرکیانہ استعمال اپنی فلسفیانہ فکر کے تحت ہی کرتے ہیں۔

اور رشین ادیبوں کا ایسا نہ کرنا بھی ان کی فکر کا نتیجہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی اپنے قاری کو تکیہ رانوں میں دبانے پر مجبور نہیں کرتے۔ مغرب کی یہی نقالی جب ہمارے ہاں کے فکری کاپی پیسٹر ادیب کرتے ہیں تو اس کا اظہار وہ کچھ یوں کریں گے۔

“معصوم چہرے کے نیچے اس کا فگر تو قیامت تھا ہی مگر اس کا لباس اس قیامت کی شدت یوں مزید بڑھا رہا تھا کہ سینے پر اس کی شرٹ کے بٹن اور کاجوں کے مابین باقاعدہ مزاحمت جیسی صورتحال تھی۔ بٹن خود کو کاج کی گرفت سے چھڑانے کے لئے پوری زور آزمائی کر رہے تھے۔”

اور یہ خرافات پڑھ کر قاری بیچارہ ناول ایک طرف رکھ کر جلدی سے ایکسٹرا تکیے کے انتظام کو اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ناول نہ ہوا پورن فلم ہوگئی اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں داد بھی دیں۔ جو رومانس اور ٹھرک کا فرق نہیں جانتے انہیں کس بات کی داد ؟

ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی زاویۂ نگاہ کے فرق کے باوجود اہداف یکساں رکھتے ہیں۔ یورپین فکر ان کا مشترکہ ہدف رہی۔ اس ہدف میں تین چیزوں کی بے حد اہمیت تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔ ایک فری ول، یعنی انسان کی بے لگام خود مختاری۔ دوسری عقلیت پسندی اور تیسرا غیر معمولی صلاحیتوں والا طاقتور آدمی اور ان تینوں تصورات میں الحاد بطور روح سرگرم ہے۔

سو اگلی سطور میں ہم مختصراً یہی واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی ان تینوں تصورات کے مقابل کیا متبادل بیانیہ رکھتے ہیں۔ بالخصوص دوستوئیسکی جس کے نام فیودور کا ترجمہ ہی “عبد اللہ” ہے مگر غلط فہمی لاحق نہیں ہونی چاہئے، ہے وہ عیسائی ! (جاری ہے)

Related Posts