برطانیہ کی نئی ویزہ پالیسی، پاکستانی شہریوں پر ممکنہ پابندیوں کا امکان

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
UK may impose visa curbs on Pakistan under new immigration rules
(Image: Online)

برطانوی حکومت کی نئی امیگریشن پالیسی کے تحت ان ممالک کے شہریوں پر ویزہ حاصل کرنے کے لیے نئی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں جن کے شہری پناہ کی درخواست دیتے ہیں یا برطانیہ میں ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی قیام کرتے ہیں۔

ان ممالک میں پاکستان، نائیجیریا اور سری لنکا شامل ہیں۔ یہ اطلاعات برطانوی ذرائع ابلاغ، خاص طور پر اخبار “دی ٹائمز” کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی وزارت دفاع ایک نیا منصوبہ زیر غور رکھے ہوئے ہے جس کے تحت مذکورہ ممالک کے شہریوں کے لیے تعلیم یا ملازمت کے ویزے حاصل کرنا مزید مشکل بنا دیا جائے گا۔

برطانوی حکام کا ماننا ہے کہ اصل مسئلہ ان افراد سے ہے جو بظاہر قانونی طور پر تعلیم یا ملازمت کے لیے آتے ہیں لیکن بعد میں پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔ اگر ان کی درخواست منظور ہو جائے تو وہ مستقل طور پر برطانیہ میں رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں حکومت کی طرف سے ایک مکمل امیگریشن منصوبہ پیش کیا جائے گا جس میں موجودہ خراب نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز شامل ہوں گی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برطانوی وزارت داخلہ نے 2020 کے بعد سے ویزہ رکھنے والے افراد کے ملک چھوڑنے کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان اعداد و شمار کی درستگی جانچنے کے لیے نظر ثانی کا عمل جاری ہے۔

بیشتر افراد جو برطانیہ سے واپس جاتے ہیں، ان کا سرکاری طور پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتاجس کا مطلب یہ ہے کہ متعدد لوگ، جن کے روانگی کا کوئی اندراج نہیں وہ اب بھی ملک میں موجود ہو سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف لندن کے تحقیقی ادارے “یو کے اِن اے چینجنگ یورپ” سے وابستہ پروفیسر جوناتھن پورٹس کے مطابق ان مجوزہ ویزہ پابندیوں سے پناہ گزینوں کی درخواستوں میں کوئی خاص کمی واقع ہونے کا امکان نہیں۔

بی بی سی ریڈیو فور سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ “میرا خیال ہے کہ اس اقدام کا مقصد مجموعی تعداد کم کرنا نہیں، بلکہ ان پناہ گزین درخواستوں کو روکنا ہے جو نظام کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتی ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا: “جب کوئی طالبعلم ویزہ لے کر آتا ہے اور فوری طور پر اپنا اسٹیٹس مہاجر میں بدل لیتا ہے، تو یہ نظام کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال ہے، اور حکومت اسی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔”

گزشتہ برس وزیراعظم بننے کے بعد سر کیئر اسٹارمر نے قانونی اور غیر قانونی دونوں قسم کی امیگریشن میں کمی کے عزم کا اظہار کیا تھا تاہم وہ ابھی تک مجموعی نقل مکانی کے لیے کوئی ہدف مقرر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس طرح کے اہداف فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے۔

Related Posts