عرب امارات کا ایک ہی احاطے میں مسجد، چرچ اور یہودی عبادتخانہ بنانے کا منصوبہ

مقبول خبریں

کالمز

zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (پہلا حصہ)
"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

متحدہ عرب امارات نے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بین المذاہب مرکز “ابراہیمی فیملی ہاؤس” قا‏ئم کیا ہے جس میں بیک وقت مسجد، چرچ اور ملک کا پہلا سیناگوگ یعنی یہودی معبد ایک ہی جگہ واقع ہوں گے۔

تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملک نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائ‍م کیے تھے اور یہاں ایک مختصر مگر فعال یہودی آبادی موجود ہے۔ جو عام طور پر نجی جگہ پر عبادت کرتی ہے۔

ابراہیمی فیملی ہاؤس، جس کا جمعرات کو دارالحکومت ابوظہبی میں افتتاح کیا گیا، اپنی نوعیت کا پہلا مقام ہے جہاں ایک ہی جگہ پر تین مذاہب کے لوگ عبادت کر سکتے ہیں۔

مرکز کے صدر محمد خلیفہ المبارک نے کہا کہ یہ مرکز بقائے باہمی کا ایک نمونہ ہے جو بین المداہب مکالمے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہو گا۔

مرکز میں مذہبی خدمات، تقریبات کے علاوہ عقیدے سے متعلق دیگر سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔

خلیجی عرب خطے میں یہ بحرین کے بعد دوسری یہودی عبادت گاہ ہے۔ بحرین میں یہودیوں کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی آباد ہے۔

خلیجی یہودی کمیونٹیز کی ایسوسی ایشن نے خطے میں ایک اور عبادت گاہ کھولنے پر متحدہ عرب امارات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ”ہم جی سی سی ممالک میں ایک اور معبد کی تعمیر کے لیے بہت پرجوش ہیں” “ایک مسلم ملک میں یہودی معبد کی تعمیر غیر معمولی بات ہے۔”

2020 میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانا امریکہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کا حصہ تھا جس کے تحت بحرین اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات پہلا خلیجی ملک جبکہ عرب دنیا میں مصر اور اردن کے بعد تیسرا ملک تھا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا۔

ابراہام معاہدے نے اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کی دیرینہ پان عرب پالیسی پہ ضرب لگائی جس کے تحت اسرائیل جب تک کہ مقبوضہ علاقوں سے دستبردار نہیں ہو جاتا اور فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کرتا اس سے سرکاری تعلقات نہیں قائم کیے جا سکتے۔

Related Posts