امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں، وائٹ ہاؤس کٹر قسم کے انتہا پسند عیسائی قدامت پسندوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ ایسے افراد جن کی فکری وابستگی “صہیونی مسیحیت” کے خطرناک نظریات سے ہے، آج امریکی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ، اسلام، فلسطین اور ایران کے حوالے سے۔ یہ شخصیات جہاں ایک جانب اسرائیل کو اندھا دھند سپورٹ کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف اسلاموفوبیا اور مسلم دنیا کے خلاف تعصب کو ادارہ جاتی شکل دے رہی ہیں۔
ذیل میں انہی میں سے کچھ نمایاں ناموں کا جائزہ کرتے ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو صدر ٹرمپ کے گرد دائرہ بنا کر پالیسیوں کی سمت طے کر رہے ہیں۔ باقی صہیونی مسیحیت اور ایونجیلیکل عیسائیوں کے بارے میں اگلی نشست میں بات کریں گے۔
1۔ پیٹ ہیگسیث– وزیر دفاع
نائن الیون حملوں کے بعد، پیٹ ہیگسیث نے یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 2003 میں گریجویشن کے بعد اگرچہ انہوں نے کچھ عرصہ مالیاتی شعبے میں کام کیا، لیکن جلد ہی بڑی تنخواہ والی نوکری کو چھوڑ کر فوج میں واپس آ گئے۔ ان کے بقول، وہ “وہابیوں سے جنگ” کے لیے میدان میں اترے۔ انہوں نے جورجیا میں تربیت حاصل کی اور 2004 میں گوانتانامو جیل میں بطور فوجی افسر تعینات ہوئے، جہاں ان کا کام ان قیدیوں کی نگرانی تھا، جنہیں وہ “اسلامی کچرہ” کہہ کر پکارتے تھے۔ بعدازاں انہیں عراق بھیجا گیا، جہاں انہوں نے سامرہ اور سنی مثلث میں معرکے لڑے۔ جنگی قوانین اور اصولوں کی وہ کھل کر مخالفت کرتے تھے اور اپنے ماتحتوں کو بھی تلقین کرتے کہ کسی بھی ممکنہ خطرے پر قانونی پیچیدگیوں کی پروا کیے بغیر فوراً کارروائی کریں۔ 2012 میں وہ افغانستان میں انسدادِ بغاوت کی فوجی تربیت گاہ میں اعلیٰ تربیت کار مقرر ہوئے، جہاں انہوں نے امریکی فوجی کارروائیوں کی حمایت جاری رکھی۔ تاہم مارچ 2025 میں ان کی ایک تصویر نے شدید تنازع کھڑا کر دیا۔ وہ پرل ہاربر- ہیكام فوجی اڈے کے دورے پر تھے، جب ان کے بازو پر عربی میں کندہ “کافر” اور لاطینی زبان میں صلیبی نعرہ “Deus Vult” (یعنی “خدا کی مرضی”) کا ٹیٹو نمایاں ہوا۔ یہ نعرہ صلیبی جنگوں میں عیسائی فوجیں بہ آوازِ بلند لگایا کرتی تھیں۔
پیٹ ہیگسیث اسلام کو ایک نظریاتی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے وہ محض مذہب نہیں بلکہ عسکری اور تاریخی خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ ان کی کتاب “The American Crusade” (یعنی “امریکی صلیبی جنگ”) میں بھی جھلکتا ہے، جہاں وہ اسلام کو “جارحانہ دین” قرار دیتے ہیں۔ دوسری کتاب “In the Arena” میں وہ اسلام کو “مقفل اور سخت گیر روایات پر قائم نظام” کہتے ہیں اور اسلامی تحریکوں کو مغرب کے لیے مستقل خطرہ گردانتے ہیں۔ وہ اسلامی دنیا کی تمام مزاحمتی یا سیاسی تحریکوں کو دشمن کے زمرے میں رکھتے ہیں اور ان کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔
پیٹ ہیگسیث جیسے افراد کی موجودگی ٹرمپ انتظامیہ میں نہ صرف اسلام دشمنی کو قانونی اور عسکری جواز مہیا کر رہی ہے، بلکہ یہ امریکی پالیسی کو ایسے خطرناک بیانیے کی طرف دھکیل رہی ہے جس کے نتائج عالمی سطح پر مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کرداروں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی فکری کڑیاں ہمیں ان نظریاتی جنگوں کی یاد دلاتی ہیں، جن کا ایندھن صدیاں پہلے صلیبی جنگوں میں جھونکا گیا تھا اور آج وہی چنگاریاں ایک بار پھر بھڑک رہی ہیں۔
(2) اسٹیفن ملر: اسلام دشمنی کا پالیسی ساز دماغ
اسٹیفن ملر… وائٹ ہاؤس کا وہ چہرہ جو آج بھی امریکی پالیسی کے سب سے تاریک گوشے میں کھڑا ہے۔ یہودی پس منظر سے تعلق رکھنے والا یہ شخص ریاست کیلی فورنیا میں پروان چڑھا، اور آج “نائب چیف آف اسٹاف برائے پالیسی” اور “مشیرِ قومی سلامتی” کے عہدوں پر فائز ہے۔ جنوری 2025 سے لے کر اب تک، اس کی سوچ اور منصوبہ بندی نے نہ صرف امریکہ کے داخلی ڈھانچے کو متاثر کیا، بلکہ عالم اسلام کے خلاف امریکی پالیسی کو بھی مزید متشدد بنا دیا۔
اسلام کے خلاف فکری یلغار:
اسٹیفن ملر کو اگر “پالیسیوں کا جنگجو” کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ خاص طور پر مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف اس کی کوششیں کسی جذباتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم نظریاتی پروجیکٹ ہیں۔ وہی شخص ہے جس نے 2017 میں صدر ٹرمپ سے “مسلم بین” جیسے متنازع ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کروائے، جس کے تحت سات مسلم ممالک کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روک دیا گیا۔ یہ قدم محض سیاسی اعلان نہ تھا، بلکہ اسٹیفن ملر کی دیرینہ سوچ کا مظہر تھا۔ یونیورسٹی کے دنوں سے ہی اس کے ذہن میں اسلام کو ایک خطرناک دشمن کے طور پر پیش کرنے کا رجحان تھا۔ اسی سوچ کے تحت اس نے “پروجیکٹ آن ٹیرر از ویئرنیس” کے نام سے ایک طلبہ تنظیم قائم کی، جس کا مقصد تھا: “اسلامی فاشزم” کے خطرے سے آگاہی دینا۔ اس تنظیم کے تحت اس نے ایسی دستاویزی فلمیں دکھائیں، جن میں اسلام کو کلیتاً تشدد اور جارحیت سے جوڑا گیا تھا۔ ان فلموں کا مقصد محض تعلیم دینا نہیں بلکہ خوف اور نفرت کا ماحول بنانا تھا۔
ملر کا ماننا ہے کہ امریکی جامعات بائیں بازو کے زیرِ اثر ہیں، اور اسی وجہ سے وہ “اسلامی فاشزم” کے خطرے کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ امریکا “اسلامی فکری جارحیت” سے دوچار ہے اور اس کے خلاف سخت جنگ ناگزیر ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے عراق پر امریکی حملے کی کھل کر حمایت کی اور اسے ایک “شرعی جواب” قرار دیا۔ ملر سمجھتا ہے کہ دنیا کی اسلامی تحریکیں محض سیاسی نہیں، بلکہ وہ ایک “خدائی ارادہ” رکھتی ہیں جس کے تحت وہ دیگر تہذیبوں پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتی ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے “فکری جنگ” سے زیادہ “قوت و قہر” کی ضرورت ہے۔
وائٹ ہاؤس میں اسلام دشمنی کا مرکزی کردار:
اسٹیفن ملر کا سیاسی سفر ایک ہی جہت پر استوار ہے: مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف سخت گیر پالیسیوں کا نفاذ۔ اس نے نہ صرف امیگریشن پالیسیوں کو سخت تر بنایا بلکہ مہاجرین کے کوٹے بھی محدود کیے۔ “مسلم بین” جیسے فیصلے صرف نفرت پر مبنی بیانیے نہیں تھے، بلکہ ملر کی منظم کوششوں کا نتیجہ تھے، جس میں وہ جان بوجھ کر ان سیکورٹی ماہرین اور قانونی ماہرین کی رائے کو نظرانداز کرتا رہا، جو ان پالیسیوں کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتے تھے۔ ملر کا زیادہ تر انحصار انتہائی دائیں بازو کے ویب پلیٹ فارمز جیسے “وی ڈیئر” اور “امریکن رینیسانس” پر رہا، جو کہ اسلام اور تارکین وطن کے خلاف نسل پرستانہ مواد پھیلاتے ہیں۔ اس نے ان ذرائع سے لیے گئے مضامین اور دلائل کو بارہا سرکاری پالیسی سازی میں استعمال کیا، گویا نفرت اور تعصب کو ریاستی آئین میں چپکانے کی کوشش کی ہو۔
اسلامی مراکز پر نگرانی اور “قومی شناخت” کی جنگ:
ملر نے امریکا کے اندر اسلامی مراکز، مساجد اور مسلم کمیونٹی پر کڑی نگرانی کے اقدامات کی بھی پرزور حمایت کی اور اس پورے بیانیے کو ایک “قومی فریضے” کا نام دیا، یعنی امریکی شناخت کی حفاظت۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ ایک تہذیبی چیلنج ہے، جسے محدود کرنا قومی سلامتی کی ضرورت ہے۔ آج بھی وہ صدر ٹرمپ کے پہلو بہ پہلو ہر اہم موقع پر نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ “ٹروتھ سوشل” پر ٹرمپ کی بیشتر تحریریں اس کے مشورے سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ اسٹیفن ملر کی موجودگی اور اثرو رسوخ، صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا سے متعلق پالیسیوں پر گہرا اور واضح اثر ڈال رہے ہیں۔ اسٹیفن ملر، وائٹ ہاؤس کا وہ “دماغ” ہے جو نفرت کو منظم شکل دیتا ہے اور تعصب کو پالیسی میں ڈھالتا ہے۔ اس کی نظریاتی دشمنی صرف بیان بازی تک محدود نہیں، بلکہ امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ فکری یلغار اب محض انتہا پسندی نہیں، بلکہ “قانونی شدت پسندی” کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو شاید آئندہ برسوں میں نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
مائیک ہاکابی… ایک پادری جو سفیر بن گیا!
نو اپریل 2025 کو امریکی سینیٹ نے معمولی اکثریت سے مائیک ہاکابی کی اسرائیل میں امریکا کے سفیر کے طور پر تقرری کی منظوری دی۔ ہاکابی سابق گورنر ہیں ریاست آرکنساس کے، اور ایک جانے مانے انجیلی مبلغ بھی۔ ان کی تعیناتی کو اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے اندرونی صہیونی مذہبی دھڑے کی ایک واضح فتح کے طور پر دیکھا گیا، کیونکہ ہاکابی نہ صرف اسرائیل کے سخت حامی ہیں بلکہ ان کے نزدیک امریکا اور اسرائیل کا اتحاد محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں بلکہ ایک “خدائی فریضہ” ہے۔ سینیٹ میں تقرری کی سماعت کے دوران ہاکابی نے نسبتاً معتدل لہجہ اپنایا اور کہا کہ وہ سفیر کی حیثیت سے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی نمائندگی کریں گے، نہ کہ اپنی ذاتی رائے کی۔ تاہم ان کے ماضی کے بیانات اور انٹرویوز ایک واضح اور غیرلچکدار موقف کو ظاہر کرتے ہیں، جو بعض اوقات فلسطینیوں کے حوالے سے نہایت معاندانہ ہوتا ہے۔
جون 2025 میں بلومبرگ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہاکابی نے صاف الفاظ میں کہا: “میں نہیں سمجھتا کہ امریکا کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے” اور ساتھ تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کسی اور مسلم ملک میں قائم کی جا سکتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ مغربی کنارے میں ہو، جسے وہ عبرانی ناموں “یہودا اور سامریہ” سے پکارتے ہیں۔ اسرائیلی بستیوں سے متعلق ان کا موقف بھی مکمل طور پر واضح اور انتہا پسندانہ ہے۔ وہ امریکا کی ان چند شخصیات میں شامل ہیں جو بے باکی سے اسرائیلی توسیع پسندی اور بستیوں کی تعمیر کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے بقول مغربی کنارہ دراصل “یہودی شہروں اور محلّوں” پر مشتمل ہے اور وہ اسے مقبوضہ علاقہ ماننے سے انکاری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی ان قراردادوں کو مشکوک قرار دیتے ہیں جو اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی کہتی ہیں۔
جہاں تک ایران کے ساتھ امریکا کی کشیدگی کا تعلق ہے، ہاکابی ٹرمپ انتظامیہ کے اندر ان “بازوں” میں شامل رہے ہیں جو سب سے زیادہ جارحانہ موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کئی مواقع پر صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے خلاف “خدائی ردعمل” اختیار کریں۔ ان کے مطابق، یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ ایک روحانی رہنمائی ہو سکتی ہے جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ “ٹرمپ کو آسمان سے آواز آ سکتی ہے” جو انہیں رہنمائی دے۔ یہ کوئی شاعرانہ یا استعارہ نہیں تھا، بلکہ ان کا حقیقی عقیدہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ جنگ ایک “پیغمبرانہ مرحلہ” ہے، جو مسیحی- یہودی مذہبی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ موقف دراصل انجیلی صہیونی حلقوں میں رائج اس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی جنگیں “حضرت مسیح کی واپسی” کی تمہید ہیں۔ (اس پر اگلے کالم میں روشنی ڈالیں گے)