ٹرین حادثہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گھوٹکی میں ٹرین کا المناک حادثہ ایک اور یاددہانی ہے کہ ریلوے حکام کی عدم توجہی اور نااہلی کی وجہ سے ٹرین کا سفر پاکستان میں غیر محفوظ ہوچکا ہے، دو ٹرینوں کے تصادم میں 40 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوگئے،کراچی آنے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری کی مخالف سمت سے اتر گئیں، اس کے بعد آنے والی سرسید ایکسپریس نے ٹکر ماری۔

انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس نے بتایا کہ ریتی اسٹیشن سے نکلنے کے بعد ٹرین مقررہ اسپیڈ پر تھی کہ اچانک ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوتی نظر آئیں، فاصلہ کم ہونے پر ٹرین ملت ایکسپریس کی ڈی ریل بوگیوں سے ٹکراگئی۔سر سید ایکسپریس کے ڈرائیور نے کہا کہ ڈبے گرے ہوئے دیکھنے کے بعد میں نے ہنگامی بریک لگانے کی بہت کوشش کی لیکن گاڑی نہیں رکی اور ملت ایکسپریس سے جا ٹکرائی جو پہلے ہی حادثے کا شکار ہوچکی تھی۔

یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سکھر سے گھوٹکی جانے والے ٹریک کو غیر محفوظ قرار دے دیا گیا تھا لیکن وزارت ریلوے کے اندر ہونے والی لڑائی کے باعث کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر نے ٹریک کی خستہ حالی سے متعلق گزشتہ ہفتے سی ای او ریلوے کو مراسلہ تحریر کیا جس میں کہا تھا کہ سکھر ڈویژن میں مین لائن کے456 کلو میٹرٹریک کی حالت خراب ہے اور برانچ لائن کا 532کلو میٹر ٹریک بھی خستہ حالی کاشکارہے اورانہوں نے لاہور سے کراچی کا ٹرین سفر غیر محفوظ اور خطرناک قرار دیاتھا۔

وزیراعظم نے واقعے کی ایک جامع تحقیقات کا حکم دیا ہے تاہم ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی پوچھ گچھ کے شاذ و نادر ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ڈرائیور کو اکثر قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے یا رپورٹ دبا دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے پاس ایک نیا ریلوے وزیر بھی ہے لیکن یہ ادارہ ابھی بھی بوکھلاہٹ میں ہے اور اسے فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ٹرینوں کے حادثات بڑھتے جارہے ہیں اور موجودہ دور حکومت میں ٹرینوں کے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن ذمہ داران کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔

ریلوے افسران کے مطابق ٹریک خراب تھا تو اس پر سفر کی اجازت کیوں دی گئی اور مسافروں کے مطابق اگر بوگی کا کلمپ ٹوٹا ہوا تھا تو اس بوگی کی مرمت کیوں نہیں کی گئی اور اگر ڈی ایس سکھر کی ذہنی حالت درست نہیں تو انہیں انتہائی اہم ذمہ داری کیوں دی گئی۔

اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے مغربی ممالک کی مثال پیش کی تھی کہ کیا معمولی حادثات پر وزیر استعفیٰ دیتا ہے۔ تاہم پچھلے دو سالوں میں متعدد واقعات ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور نہ ہی کسی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

ٹرین کا سفر محفوظ بنانا ضروری ہے،یہ لاکھوں لوگوں کے لئے نقل و حمل کا سب سے زیادہ ذریعہ ہے اور ہمیں ان کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پورے نظام کی اصلاح کرے اور ایک تیز، موثر اور محفوظ سفر سفر بنائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ غفلت برتنے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

Related Posts