یہ ایک معروف لیکن تشویشناک حقیقت ہے کہ اپنی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ میں پاکستان نے کبھی بھی ایسا وزیراعظم نہیں دیکھا جس نے اپنے 5 سال پورے کیے ہوں،تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا اور ثابت کیا کہ عوامی امنگوں کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ قوم سیاسی استحکام کی بھی مستحق نہیں ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار یہ کہہ کر ہمارے سیاسی نظام کا مذاق اڑایا تھا کہ: ’’میں اتنی بار اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی بار پاکستان اپنے وزیر اعظم بدلتا ہے۔‘‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان عدم اعتماد کے ووٹ سے معزول ہونے والے پہلے وزیر اعظم بن چکے ہیں اور شہباز شریف نے 11 اپریل 2022 کو پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ انہیں مبارک ہو۔
درحقیقت عمران خان کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں تھی لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اتحادیوں اور آزادجیت کر آنیوالوں پر انحصار کرنا پڑا تاہم آخری تنکا جس نے عمران خان کی کمر توڑ دی وہ “الیکٹ ایبلز” تھے۔
یہ وہ لوگ ہیں جوہر وقت منافع کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ سیاسی اتحادیوں، آزاد اور الیکٹیبلز کو قومی معاملات، خارجہ پالیسیوں، معاشی بحران اور گڈ گورننس میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایسے اتحادی اور الیکٹیبلز کبھی بھی اپنے مفادات کے پیش نظر آپ کو دھوکہ دے جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں احتساب جمود کا شکار یا کم از کم یکطرفہ ہو جاتا ہے۔ جب ملزم یامجرم کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں یا اس میں پناہ لیتے ہیں تو وہ پارٹی اور قوم کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں، ایسے اتحادیوں اور الیکٹیبلز کے ہاتھوں پی ٹی آئی کی حالیہ تذلیل اس کی بڑی مثال ہے۔
سیاسی اور معاشی تجزیہ کار ایک طرف تو حکومت کی تبدیلی کو راحت کی سانس سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ اس طرح کی روزمرہ کی تبدیلی کی سرگرمیوں کو جمہوری سیاسی ترقی کے لیے برا شگون تسلیم کرتے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو شکایت ہے کہ اب تک کسی بھی منتخب وزیراعظم نے اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کی۔
وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے پھانسی دی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے معزول کر دیا۔ نواز شریف کو عدالت نے تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ اور اب بھی عدالتوں میں بھی وہی بات دہرائی جارہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف سیاست کرنے والوں نے عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عدالتیں اور ان کے فیصلے کبھی جمہوریت اور سیاستدانوں کے حق میں نہیں رہے۔
سیاست ہو یا پارلیمانی مسائل، عدالتی فیصلے ہمیشہ دور رس منفی سیاسی اثرات لے کر آئے ہیں۔
جوڈیشل ایکٹوازم یا عدالتی مداخلت جمہوریت کے حق میں کبھی نہیں رہی۔ یہ سیاستدان ہی ہیں جو عدالتوں اور فوج کو سیاست میں گھسیٹتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی کارروائی اورا سپیکر کی جانب سے دئیے گئے فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاتا تاہم ان کے نزدیک ڈپٹی اسپیکر کے عدم اعتماد کے ووٹ کو کالعدم قرار دینا ضروری تھا، س لئے کالعدم قرار دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجودعمران خان کی حکومت کی آخری کابینہ نے کچھ مخصوص بااختیار شخصیات کے لیے خط کو عام کر دیا۔
قومی سلامتی کمیٹی خط کے حوالے سے بہت پہلے شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خط کو مداخلت قرار دیا ہے لیکن یہ سازش نہیں ہے۔ عمران خان اس خط کو دورۂ روس کا آفٹر شاک سمجھتے ہیں۔
پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ بے دخلی سے بچنے کے لیے یہ عمران خان کی اپنی سیاسی چال ہے۔ خط اصلی تھا یا من گھڑت، الیکٹ ایبلز اور اتحادیوں کا ضمیر گہری نیند سے جاگا یا بک گیا، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے۔
اب شہباز شریف ہمارے 23ویں وزیر اعظم ہیں اور عمران خان بڑے پیمانے پر استعفے دینے کے بعد عوامی اجتماعات میں شامل ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔
شہباز شریف ملک کو دوبارہ پٹری پر لانے اور نظام کو آگے لے جانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ شہباز شریف خوش قسمت ہیں جس دن ان پر فرد جرم عائد ہونا تھی، اس دن وہ وزیراعظم بن گئے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے پاکستان کے قومی صحت کے نظام پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کے قائد نواز شریف جلد واپس آجائیں گے اوراسحاق ڈار بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ پاکستان میں خوش آمدید ! یہ آپ کا اپنا ملک ہے۔
آپ جب چاہیں جا سکتے ہیں اور جب چاہیں واپس آ سکتے ہیں۔ اب نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سرپرستی میں جمہوریت پروان چڑھے گی۔ہم اس طرح کے پرامن مشترکہ سیاسی سیٹ اپ کو دیکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔
میرا خواب تھا کہ میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، ایم کیو ایم-پی، جے یو آئی-ف، بی این پی-ایم، بی اے پی، جے ڈبلیو پی اور اے این پی پر مشتمل ایک جامع سیاسی سیٹ اپ دیکھوں۔ میرا خواب پورا ہوالیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ مشترکہ حکومت جلد ختم ہو جائے گی۔
میں وہ شخص ہوں جو خوشی سے ڈرتا ہے۔ جب میں اس امتزاج کا ماضی یاد کرتا ہوں تو میں مایوس ہو جاتا ہوں تاہم مجھے امید ہے کہ اس دن سے وہ ایک دوسرے کو “بیماری” نہیں کہیں گے۔ وہ ایک دوسرے کے پیٹ نہیں پھاڑیں گے۔ وہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر نہیں گھسیٹیں گے۔
عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف کالے کوٹ نہیں پہنیں گے۔ وہ ایک دوسرے کی ناکامیوں کا جشن منانے کے لیے بیکریوں سے مٹھائیاں نہیں خریدیں گے۔ ایک دوسرے کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکیں گے۔
وہ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال نہیں کریں گے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہارس ٹریڈنگ نہیں کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مشترکہ سیاسی نظام دیرپا رہے گا اور نئے وزرائے اعظم کو معزول نہیں کیا جائے گا۔
عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں پوری اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔عمران خان نے نہ تو مہنگائی پر قابو پایا اور نہ ہی بدعنوانی کا خاتمہ کیا لیکن کورونا ، گلوبل وارمنگ اور اسلامو فوبیا کے خلاف ان کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔
واحد قومی نصاب، احساس کفالت پروگرام اور صحت انصاف کارڈ عمران خان کی حکومت کے غریب نواز اقدامات تھے۔ مجھے امید ہے کہ نئے وزیر اعظم ایسے تمام غریب نواز اور ماحول دوست اقدامات کو جاری رکھیں گے۔
عمران خان کھلاڑی سے سیاست دان بنے ، انا، تکبر اور ضد ان کے خون کی گہرائیوں میں دوڑتی ہے۔ سیاست میں ان کی آمد سے قبل سیاست میں ’’آخری گیند، تھرڈ امپائر، نیوٹرل امپائر اور وکٹ‘‘ کا تصور نہیں تھا۔
عمران خان کے سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے، لوگوں (خاص طور پر نوجوانوں) کی معیشت، خارجہ امور اور احتساب میں کوئی مناسب دلچسپی نہیں تھی۔ اگرچہ وہ خود بہت سے لوگوں کے لیے کامیاب سیاسی رہنما نہیں رہے لیکن انھوں نے نوجوانوں کو ایک کامیاب لیڈر منتخب کرنے کے لیے ضرور آگاہ کیا ہے۔
عمران خان کا تعلق موروثی سیاسی نظام سے نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ ایک عجیب اور ناخوشگوار واقعہ ہے کہ ایک غیر موروثی سیاست دان وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ سیاسی جمود کے لیے ایسا واقعہ موت کے گھاٹ اتارنے سے کم نہیں ہوتا۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا حکم دیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ عمران خان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے تاہم ایک خبر یہ بھی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 30 روز میں فیصلہ دینے کا وہ حکم خود ہی معطل کردیا۔
پی ٹی آئی کے کارکنان اور سپورٹرز کو اگلے عام انتخابات کے لیے نئے مواقع ملیں گے اور ان میں سے کچھ نئے نام کے ساتھ نئی پارٹی بنائیں گے۔ ان میں سے کچھ لوٹے بن جائیں گے۔ ان میں سے کچھ نااہل ہوں گے اور کچھ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ میرا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی تحلیل ہو گی یا تحلیل ہو جائے گی۔ کچھ بھی ہو جائے پاکستان کا نقصان ہو گا۔
آئیے سیاسی رواداری کو فروغ دیں۔ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ایک حکومت نکلے گی تو دوسری آئے گی، پنجاب میں سیاسی ماحول ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت ایک بار پھر بدلے گی اور بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔
اس طرح کے گرم اور سیاسی طور پر چارج شدہ منظر نامے میں وقت کی ضرورت یہ ہے کہ رواداری کو اپنایا جائے۔ رواداری جمہوریت کی کنجی ہے۔ سیاسی اختلافات کو برداشت کرنا چاہیے۔ دوسروں کی بے عزتی کرکے اپنی بے عزتی نہ کریں۔ دوسروں کو بے نقاب کرکے خود کو بے نقاب نہ کریں۔
عید الفطر قریب ہے۔ جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ فضول بحث سے عید کی خوشیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔ عید پرسیاست بھول کر پیار بانٹیں۔