پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی واپسی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔
برطانوی وزیرداخلہ کا بیان
برطانوی وزیرداخلہ پریتی پٹیل نے گزشہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ مجرموں اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی واپسی کے لیے اہم معاہدے پر دستخط کیے۔
انہوں نے کہا کہ مجرموں کی حوالگی کامعاہدہ امیگریشن سے متعلق نئے برطانوی منصوبے کا حصہ ہے۔
معاہدے کا اطلاق کن پر ہوگا؟
اس معاہدے کا اطلاق ان افراد پر ہوگا جو پاکستان یا برطانیہ میں سے کسی ایک ملک کے شہری ہوں گے تاہم دوہری شہریت رکھنے والے افراد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
حکام کے مطابق اس معاہدے کے تحت اگر کسی فرد کو پاکستان کی کسی عدالت کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہو لیکن وہ برطانیہ میں مقیم ہو تو حکومت ان کو وہاں سے واپس لا سکے گی۔ اسی طرح اگر کسی نے برطانیہ میں کوئی جرم کیا اور وہاں کی عدالت نے اسے سزا سنائی ہو لیکن وہ پاکستان آ گیا ہو تو حکومت پاکستان اسے برطانیہ کے حوالے کرنے کی پابند ہوگی۔
برطانوی جیل میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد کتنی ہے؟
برطانوی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی جیلوں میں پاکستانی ساتویں بڑی تعداد میں ہیں جو کہ کل غیرملکی قیدیوں کا تین فیصد ہیں۔
کیا اس معاہدے کا نواز شریف سے کوئی تعلق ہے؟
خیال رہے کہ اس معاہدے پر کام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شروع کیا تھا اور عمومی تاثر یہی دیا جاتا رہا کہ اس طرح کے معاہدے سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو واپس لانے کی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم پاکستانی اور برطانوی حکام کے مطابق اس معاہدے کا اطلاق ان پر اس لیے بھی نہیں ہوگا کہ وہ دونوں طبی بنیادوں پر برطانیہ میں مقیم ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ پاکستان کے ساتھ اس طرح کے معاہدوں سے بہت پہلے یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایسے معاہدوں کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
اس معاہدے سے کس کو فائد ہوگا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے اصل فائدہ برطانیہ کو ہوا ہے کہ جن کی جیلوں میں سینکروں پاکستانی موجود ہیں یا جیلوں سے باہر بھی ہزاروں افراد ہوں گے جو پاکستان میں مجرم ہیں لیکن وہاں عوامی پیسے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب برطانیہ ہزاروں کے حساب سے لوگوں کو پاکستان بھیجے گا جبکہ پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد انتہائی کم ہے۔‘
ماہرین کے مطابق برطانیہ نے گزشتہ دو برس کے دوران مختلف ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں جس کی بنیادی وجہ اپنے ملک سے ایسے تمام افراد کو نکالنا ہے جو مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں اور معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ اس معاہدے سے صرف اور صرف برطانیہ کو ہی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاہدہ کسی بھی صورت میں عوامی فلاح کا معاہدہ ہے چاہے اس سے برطانوی شہریوں کو فائدہ پہنچے یا کوئی پاکستانی مستفید ہو لیکن اس معاہدے سے کسی بھی ایسے فرد کو بشمول نواز شریف پاکستان واپس نہیں لایا جا سکتا اور نہ برطانیہ بھیجا جا سکتا ہے جس کا تعلق سیاست سے ہو اور اس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔