کراچی: کراچی کے بارشوں مین ڈوبنے کی بڑی وجہ 27 بڑے نالوں میں سے 3 بڑے نالے جن پر تجاوزات کی بھر مار ہونے کے سبب ان کی صفائی ناممکن ہو چکی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عدالتی احکامات پر بغیر منصوبہ بندی تجاوزات کے کاتمے کا کام شروع کیا تاہم عوامی مزاہمت کے باعث یہ کام شروع ہی نہ ہو سکا۔
منصوبہ بنایا گیا کہ ان بڑے نالوں کے دونوں کناروں پر کشادہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی تاکہ نالوں کی صفائی بھی آسان ہو اور شہر میں ٹریفک کا دباو کم ہو جائے، اس منصوبے پر بھی عمل نا ہونے کی وجوہات صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی عدم دلچسپی تھی۔
اب جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف نے خود کراچی کا دورہ کر کے شہریوں کو یہ پیغام دیا کہ آئندہ 3 سال میں کراچی کے رکے ہوئے کام مکمل کیے جائیں گے اور یہاں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو زمہ داری سونپ دی اور خود وزیر اعظم نے بھی دورہ کراچی میں مسائل کے حل کا منصوبہ دیا۔
جس کے بعد این ڈی ایم اے کراچی میں ہے اور ابتدائی طور پر اگست میں برساتی نالوں کے چوک پوائنٹ کی سفائی کی گئی، تاہم دیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے حکومت سندھ اور متعلقہ ادارے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا محکمہ انسداد تجاوزات پولیس کی مدد سے کئی بار منظور کالونی نالے کے اطراف تجاوزات کے کاتمے کے لیے میدان میں اترا مگر مزاہمت کے باعث ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس حوالے سے سینئر ڈائریکٹر انسداد تجاوزات کے ایم سی بشیر احمد صدیقی نے ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہہم نے ہلکے پھلکے تجاوزات ختم کر دیے ہیں، ان میں کچی جھونپڑیاں،بھینسوں کے باڑے اور دیگر قبضے تھے۔
مکمل خاتمے کے لیے سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ متاثرین کو ان کے متبادل کے طور پر یا تو جگہ یا پلاٹ دیا جائے یا پھر انہیں اتنی رقم دی جائے کہ وہ اپنی رہائش کا بندو بست کر سکیں۔
جو جو تجاوزات مسمار کی جانی ہیں ان کی مکمل لسٹ بن رہی ہے اور تقریباََ لسٹیں بن چکی ہیں،ہم ایس ماہ دسمبر میں ایک بڑی اور بھر پور کاروائی شروع کر دیں گے، گزشتہ ماہ سانگنا نالہ پر سے تجاوزات مسمار کی ہیں اس پر تجاوزات کے قیام سے نالہ صرف 3 فٹ چوڑا بچا تھا مگر ہم نے اب اسے 25 فٹ چوڑا کر دیا ہے۔
بشیر صدیقی نے کہا کہ میگا سٹی کا ماسٹر پلان ہی نہیں ہے، سپریم کورٹ نے اس پر سخت ہدایت دی تھین جس کے بعد ماسٹر پلان کا ایک علیحدہ اداارہ سندھ حکومت نے قائم کردیا ہے جو اپنا کام کر رہا ہے۔
کراچی میں 54 سال سے جو بگاڑ تھا اب وہ ختم ہونے جا رہا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران شریک تھے جس میں کون سا نالہ کتنا وسیع کرنا ہے اس کی چوڑائی کتنی ہوگی۔
اس کے گرد سڑک کتنی چوڑی رکھی جائے گی یہ سب طے کر لیا گیا ہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کتنی نفری ہمیں کاروائی کے لیے دیتی ہے وہ انتہائی کم ہوتی ہے، محمودآباد نالے پر کاروائی کے دوران احتجاج کرنے والے زیادہ تھے اور سیکورٹی کم تھی منظور کالونی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جس کے باعث ہمیں واپس آنا پڑا۔
اگر بڑی کاروائی کرنی ہے تو مزاہمت کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ نفری درکار ہوگی اور ضلعی انتظامیہ کو مزاہمت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں نفری دینا ہوگی تب ہی آپریشن مکمل اور کامیاب ہو سکتا ہے۔آئندہ 10 روز بعد کراچی کے نالوں پر منصوبہ بندی کے تحت بھر پور کام شروع ہو جائے گا۔