کورونا سے اگست تک 80 ہزار اموات ہو سکتی ہیں،پروفیسر سعید قریشی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا سے اگست تک 80 ہزار اموات ہو سکتی ہیں،پروفیسر سعید قریشی
کورونا سے اگست تک 80 ہزار اموات ہو سکتی ہیں،پروفیسر سعید قریشی

کراچی:ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ کورونا سے اگست تک 80 ہزار اموات ہو سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی وباپیک (عروج/انتہائی اوقات)13تا 16اگست کو قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا اس عرصے کے دوران 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے۔

انہو ں نے کہا کہ ہم اس تبا ہ کن وبا کے نقصانات کو روک نہیں سکتے، لیکن احتیاطی تدابیرپر سختی سے عمل کرکے یہ نقصانات کم کیے جاسکتے ہیں، ویت نام کے عوام نے فروری کے اوائل میں ماسک لگانا شروع کردئیے تھے، جس بنا پر وبا نے صرف سات آٹھ سو افراد کو متاثر کیا، جبکہ ہم روزانہ آتے جاتے سیکڑوں لوگوں کو دیکھتے ہیں، جن میں سے مختصر لوگماسک لگائے ہوتے ہیں۔

اس درجہ بے احتیاطی اور لاپرواہی کے ذریعے ہم نقصان کو بڑھا سکتے ہیں کم نہیں کر سکتے، یہ باتیں انہوں نے اسلامک میڈیکل لرنر ز ایسوسی ایشن املا کے زیرِ اہتمام کورونا کی موجودہ صورتِ حال اور ہماری ذمہ داری کے عنوان سے منعقدہ آن لائن(ویبینار) سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

ویبینار سے ممتاز علمائے کرام مفتی منیب الرحمن اور مفتی محمدتقی عثمانی نے بھی خطاب کیا، جبکہ موڈریٹر کے فرائض املا کے صدر ڈاکٹر محمد شمویل اشرف نے انجام دیئے،اپنے خطاب میں پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وبا40فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے، ملک کی مجموعی صورتِ حال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے، متاثرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں، اللہ کا شکر ہے، انہیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجد نبوی اور عالمِ اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ آغاز پاکستان سے ہوا۔

انہو ں نے علما، خطبا پر زور دیا کہ جب تک حکومت کی جانب سے یہ اعلان نہ کر دیا جائے کہ اس وبا کا خطرہ ٹل گیا ہے، اس وقت تک مساجد میں ایس او پیز پر عمل کرائیں او ر عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کی ہدایت کرتے رہیں۔

اگر کسی مارکیٹ، بازار اور کسی اور جگہ پر بے احتیاطی اور بے تدبیری ہورہی ہے، تووہ ہمیں جواز فراہم نہیں کرتی کہ ہم بھی اس غلطی کے مرتکب ہوں، ہمارا کام لوگوں کی تربیت کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ مساجد میں آنے والے لوگ نظم و ضبط کے پابند ہیں اور خود وزیرِ اعظم نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کورونا کی وبا مساجد سے نہیں پھیلی۔

ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، انکی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو سازشی نظریوں بات کی گئی ہے، اس سے عوام میں کنفیو زن پھیل گیا، بعض ڈاکٹرز کی بھی رائے سامنے آئی جو ان سازشی نظریا ت کے حق میں تھی جبکہ ہمارے بعض ڈاکٹرز کی رائے تھی کہ بیماری سے متاثرہ افراد کو ماسک لگانے کی ضرورت ہے، باقی لوگ ایسا نہ کریں۔

انہو ں نے کہا کہ اس قسم کی متضاد اطلاعات کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی وہ متوقع تھی، اس میں بڑا کردار جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا ہے، لیکن اب آس پاس لوگوں کو مبتلا دیکھ کر لوگوں کو یقین ہوتا جارہاہے، کورونا ایک حقیقت ہے یہ کوئی سازش نہیں اب علما اور ڈاکٹر ز کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں ا ور احتیاطی تدابیر کی طر ف راغب کریں۔

Related Posts