مدرسہ سے 13سالہ بچے کی پھندا لگی لاش برآمد، ایک ہفتے بعد بھی معمہ حل نہ ہوسکا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مدرسہ سے 13سالہ بچے کی پھندا لگی لاش برآمد، ایک ہفتے بعد بھی معمہ حل نہ ہوسکا
مدرسہ سے 13سالہ بچے کی پھندا لگی لاش برآمد، ایک ہفتے بعد بھی معمہ حل نہ ہوسکا

اسلام آباد:تھانہ سہالہ کی حدود میں واقع مدرسہ سے 13 سالہ بچے کی پھندہ لگی لاش بر آمد ہونے کا معاملہ، قتل یا خودکشی، واقعہ کو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود پولیس یہ معمہ حل نہ کرسکی۔

تفتیشی ٹیم نے لاہور فرانزک لیبارٹری سے حتمی رپورٹس کے آنے تک معاملہ پنڈنگ فائلز میں ڈال دیا۔ مدرسہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز، جائے وقوعہ کا جائزہ اور مقتول بچے کے استاد قاری وقار سمیت 20 طلباء و اساتذہ سے لئے گئے،بیانات سے بھی پولیس کی تفتیش ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

حویلی کہوٹہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا 13 سالہ حبیب تحسین کی لاش 10 اگست 2021ء کی علی الصبح 4:22پر کہوٹہ روڈ ہمک اسلام آباد میں واقع مدرسہ آمنہ ضیاء البنات سے برآمد ہوئی۔ مدرسہ انتظامیہ کے مطابق بچے نے مدرسہ کے باتھ روم میں اپنے عمامہ کا پھندہ بنایا اور باتھ روم کے چھت کے سرئیے سے یہ پھندہ ڈال کر جھول گیا اور خودکشی کرلی۔

اس کیس کے حوالے سے موصولہ معلومات کے مطابق 13سالہ حبیب گزشتہ دس ماہ سے اسی مدرسہ سے قرآن پاک حفظ کر رہا تھا اور مدرسہ کے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ وہ ہر جمعرات کو چھٹی کرکے راولپنڈی میں مقیم اپنے چچا نعیم کے گھر جایا کرتا تھا،جہاں رات رہنے کے بعد جمعہ کو واپس مدرسہ چلا جاتا تھا۔

وقوعہ سے دس روز قبل 29 جولائی 2021ء کو حبیب نے اپنے چچا سے مدرسہ بدلنے کی فرمائش کی اور کہاکہ میں ایسے مدرسہ میں پڑھنا چاہتا ہوں جہاں صبح جاؤں اور شام کو لوٹ کر گھر آجایا کروں۔ جس پر اس کے چچا نے اس کے استاد قاری وقار اور جاپان میں مقیم بچے کے والد تحسین خان سے بھی بات کی۔

قاری وقار نے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہاکہ بچہ ذہین ہے۔ مدرسہ بدلنے سے اس کی پڑھائی پر حرج آئے گا۔ بچے کے والد نے اپنے بیٹے حبیب کو سمجھاتے ہوئے کہاکہ میں ستمبر میں پاکستان آؤں گا،پھر بیٹھ کر مدرسہ بدلنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ جس پر وہ مطمئن ہوگیا۔

وقوعہ سے چند گھٹنے قبل 9 اگست 2021ء کی رات آٹھ بجے کے قریب بچے کے استاد قاری وقار نے بچے کے چچا کو فون کرکے اطلاع دی کہ حبیب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے سینے میں جلن ہو رہی ہے۔ جس پر حبیب کا چچا اپنی گاڑی پر مدرسہ پہنچا۔

مدرسہ کے سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق بچے کے چچا نعیم رات 9 بج کر 1 منٹ پر مدرسہ کے گیٹ کے سامنے پہنچا۔ رات 9 بج کر 4 منٹ پر چچا بھتیجا گیٹ سے آؤٹ ہوئے۔ جو اسے زینب ہسپتال لے کر گیا۔

ڈاکٹر موجود نہ ہونے پر قریبی میڈیکل سٹور سے بچے کو دوائی دلائی۔یوں دونوں واپس 9 بج کر 18 منٹ پر مدرسہ کے گیٹ کے سامنے پہنچے۔ پندرہ منٹ گاڑی میں بیٹھے رہے۔ اس دوران بچے نے تین مرتبہ اپنی والدہ سے فون پر بات کی۔

آزاد کشمیر میں مقیم بچے کی والدہ نے اسے کہاکہ طبعیت ٹھیک نہیں ہے تو چچا کے ساتھ گھر چلے جاؤ۔ جس پر اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اب بہتر محسوس کر رہا ہوں اور گھر جانے سے پڑھائی بھی متاثر ہوگی۔ رات 9 بج کر 36 منٹ پر حبیب گاڑی سے اتر کر مدرسہ کے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ وہ اپنے کمرے میں گیا۔ لائٹ جلائی اور میڈیسن رکھی۔

سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق رات 10 بج کر 12 منٹ پر وہ واش روم گیا۔ پھر واپس اسٹور روم میں گیا، ایک کپڑا لیا اور دوبارہ 9 بج کر 54 منٹ پر واش روم گیا۔ اس دوران سی سی ٹی وی فوٹیج میں گیلری میں طلباء آتے جاتے ہوئے بھی نظر آرہے تھے۔

صبح 4 بج کر 17 منٹ پر حبیب کے استاد قاری وقار نے حبیب کے چچا کو فون کرکے کہاکہ بچے کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ جس پر چچا نعیم گھر سے مدرسہ جانے کے لئے نکلا اور 4 بج کر 22 منٹ پر دوبارہ قاری وقار کو فون ملایا تو انہوں نے کہاکہ حبیب نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی ہے۔

جس پر وہ سیدھا سہالہ تھانے گیا اور پولیس کو ساتھ لے کرمدرسہ پہنچا تو حبیب کی لاش کمرے میں کارپٹ پر رکھی ہوئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو دئیے گئے بیان میں قاری وقار کا کہنا تھاکہ صبح چار بجے سارے بچوں کو لائن اپ کیا تو حبیب تحسین موجود نہ تھا۔

جس پر اس کی تلاش شروع ہوئی تو ایک بچے نے دیکھا کہ واش روم کا دروازہ اندر سے بند ہے، جب دیوار کے اوپر سے دیکھا تو حبیب نے باتھ روم کی چھت کے سرئیے سے کپڑا باندھ کر گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔

جس پر چار طلباء کی مدد سے لاش باتھ روم سے کمرے میں منتقل کی گئی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ لاش برآمدگی کے بعد کئی باتیں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہیں۔ بچے نے اگر باتھ روم میں خودکشی کی تھی تو پھر پولیس کے آنے سے قبل لاش کمرے میں کیوں منتقل کی گئی؟ بچے کی آنکھیں اور منہ کھلا ہوا تھا۔

باتھ روم کی اونچائی چھ فٹ تھی جبکہ بچے کا قد پانچ فٹ تھا۔ چھ فٹ اونچائی والے باتھ روم میں کسی طور خودکشی ممکن نہیں۔ بچے نے گلے میں پھندہ ڈال کر باتھ روم کی چھت کے سرئیے سے باندھا بھی تھا تو ایسی صورت میں کپڑا بھی اڑھائی سے تین فٹ نیچے آ جاتا ہے۔ یوں فرش سے باقی لمبائی بمشکل تین فٹ رہ جاتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ پانچ فٹ کا بچہ تین فٹ اونچائی میں پھندہ لگاکر خودکشی کرلے؟

بچے کے جسم پر کوئی زخم کا نشان موجود نہ تھا۔ تاہم گلے میں کپڑے سے پھندہ ڈالنے اور کھینچے جانے کا نشان موجود تھا۔ جائے وقوعہ سے یا بچے کے بیگ سے کسی قسم کی تحریر بھی پولیس کو نہیں مل سکی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس میں حقائق چھپانے پرمزید 6 ملزمان گرفتار

معلوم ہوا ہے کہ حبیب مدرسہ میں ایک ہال نما کمرہ میں رہتا تھا جہاں اس کے ہمراہ 30 بچے اکٹھے رہتے تھے۔ جن کی عمریں بھی بارہ سے سترہ سال کے درمیان تھیں۔ تاہم پولیس اس وقت اس انتظار میں ہے کہ لاہور لیبارٹری سے فرانزک رپورٹس آ جائے تو ہی تفتیش کسی نقطے پر پہنچ سکتی ہے۔

Related Posts