بندر بانٹ کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو سیاست دانوں کے چہرے استعمال کرکے اصل کھیل کھیلتے ہیں۔
آپ کی سیاسی جماعت بظاہر مقبول ہے تو آپ اتنی نشستیں لے لیں اور خاموش ہوجائیں۔ آپ کے مقابلے پر فلاں جماعت کو نشستیں ملیں گی۔ فلاں جماعت فلاں سے اتنی سیٹوں کے مارجن سے قومی اسمبلی میں آگے ہوگی، یہ سب کچھ عوام نہیں، اسٹیبلشمنٹ ہی طے کرتی آئی ہے۔
گزشتہ 76سالوں سے پاکستان کے عوام مسلسل یہ سوچتے اور سمجھتے رہے کہ ان کے ووٹ میں طاقت ہے اور یہ کہ ان کا ووٹ کسی شخص کو وزیر اعظم بنانے کی طاقت رکھتا ہے لیکن جب 2018میں کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کو وزیر اعظم بنایا گیا تو ہر شخص حیران رہ گیا۔
صرف عمران خان کو وزیر اعظم ہی بنایا گیا ہوتا تو الگ بات تھی۔ یہاں تو پی ٹی آئی کے ایسے ایسے لوگ بھی اسمبلی کے اراکین بن کر بیٹھ گئے جنہوں نے انتخابی مہم کیلئے کوئی محنت نہیں کی تھی بلکہ انہیں گراؤنڈ پر موجود پی ٹی آئی کارکنان کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں تھا۔
پھر کچھ یوں ہوا، جیسا کہ ہوا کرتا ہے۔ نو دولتیے اکثر ایسی ہی وارداتیں کیا کرتے ہیں جیسا کہ تحریکِ انصاف کے متعدد اراکین نے کیا بھی کہ گراؤنڈ لیول پر موجود کارکنان کے فون اٹھانا، ان کی شکایات سننا اور ازالے یا فیصلے کرنا بند کردئیے اور یہ ظاہر کرنے لگے کہ ہم بے حد مصروف ہیں۔
جو اراکینِ قومی اسمبلی بنے وہ اسلام آباد آنے جانے لگے لیکن عوام کیلئے اقدامات کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اور پھر جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ سچ ثابت ہوا جو کپتان نے کہا تھا کہ مجھے ہٹا دیا تو میں زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا اور وہی ہوا۔
گزشتہ روز صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے امریکی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹرویو کے دوران کہا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے میرا رابطہ زیادہ تر سرکاری امور کے سلسلے میں ہوا کرتا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم تھے تو ان سے بھی ذاتی معاملات پر کم بات ہوتی تھی۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عمران خان اور فوج کے درمیان مصالحت میں ناکامی کی بہت سی وجوہات تھیں جن کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ عمران خان کے خلاف مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور صدر کی حیثیت سے میرا یقین عدلیہ پر ہے۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان اور فوج کے مابین مصالحت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا عمران خان اور فوج کے مابین کوئی جھگڑا ہورہا تھا؟ کیونکہ خود تحریکِ انصاف اور پاک فوج کی جانب سے بھی اس امر سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے۔
فوج تو واضح کرچکی ہے کہ ہمارا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا اور عمران خان کی جانب سے فوج کے خلاف جو بیانات سامنے آئے، وہ بھی کچھ مخصوص جرنیلوں، بالخصوص سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف تھے۔
اپریل 2022 میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں اور کوئی شخص ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھکتا نہیں ہے۔ ن لیگ کے دور کا واحد کارنامہ آئی ایم ایف سے کسی قدر مصالحت تھی جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا۔
شہباز شریف کے دور میں پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان آیا، اس کی وجہ عمران خان اس لیے تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے دور میں ہی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے سے انحراف ہوا اور پھر آئی ایم ایف نے پاکستان کی لگامیں اتنی کس دیں کہ آج تک یہ لگامیں ڈھیلی ہوتی نظر نہیں آتیں۔
بہت سے دیگر سوالات بھی عوام کے ذہنوں میں ہیں۔ مثلاً انوار الحق کاکڑ کو وزیر اعظم کیسے بنایا گیا جبکہ ابتدائی طورپر پاکستانی میڈیا میں آنے والی خبروں میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت دیگر نام تو نظر آتے ہیں، انوار الحق کاکڑ کہیں نظر نہیں آتے۔
تاہم حقیقت یہی ہے کہ وزیر اعظم کون بنے گا؟ عام انتخابات کب ہوں گے؟ وفاقی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟ کس جماعت کی کتنی نشستیں ہوں گی اور کون سی جماعت کو دیوار سے لگایا جائے گا، یہ تمام بندر بانٹ اور اکھاڑ پچھاڑ کچھ نادیدہ ہاتھ کرتے ہیں، وہی نادیدہ ہاتھ، جن کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔