حج کے دوران سیلفی لینے کی نئی وبا، اس سے اجتناب لازم ہے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حج کے مواقع پر سب سے اہم اور بڑی برائی جو دیکھنے میں آتی ہے وہ کثرت سے اپنی تصاویر لینا اور موبائل پر سیلفیاں اپلوڈ کرنا ہے۔ یہ کام ایسا غیر ضروری اور لایعنی ہے کہ اس سے وقت کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں ریاکاری بھی شامل ہوجاتی ہے جو کہ نیکیوں کو ایسے مٹا دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ختم کردیتی ہے۔

سیلفی لینے والا پوری دنیا کو بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں اس وقت حج کے لیے بیت اﷲ کے پاس موجود ہوں۔ اس کے علاوہ  اس سیلفی کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ یہ بتانا کہ میں نے حج کرلیا، یا میں عمرے کی ادائیگی کے لیے نکلا ہوا ہوں اور دیکھنے والوں سے داد و تحسین وصول کرنا ہے، جو کہ بغیر کسی اختلاف کے ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل کے غیر ضروری استعمال، سیلفیاں بنا کر اپ لوڈ کرنا اور ہر وقت موبائل اور سوشل میڈیا کی دنیامیں کھوئے رہنا سراسر تقوے کے خلاف ہے، حالانکہ تقوے کا حکم خود اللہ رب العالمین نے اگلوں اور پچھلوں کو دیا ہے اور اس کی نصیحت و وصیت اس نے بذات خود تمام قوموں کو کی ہے۔ فرمان باری تعالى ہے:

وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ

النساء – 131

تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یقینا یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو ۔

ایام حج بہت مختصر ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں بہت زیادہ محنت اور لگن سے عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اتنے دور سے اتنا سفر کرکے آنے کے بعد بھی کوئی حاجی موبائل، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر اپنے وقت کا ضیاع کرتا رہے تو گویا اس نے اپنے آنے کا مقصد ہی ضایع کردیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار

حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کا اظہار ہے،اللہ کا ارشاد ہے کہ :  

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا  وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

آل عمران – 97

اور اللہ کی رضا کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے، جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اور جو انکار کرے گا، تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔

یہ آیت کریمہ اس شخص پر حج کو واجب کرتی ہے جس میں حج کی استطاعت کے ساتھ وجوب حج کے شرائط مکمل پائے جاتے ہوں اور بندگی کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اس حکم الٰہی کے سامنے فرمانبردار اور متواضع ہو،اس كے پاس سوائے یہ كہنے كے كہ ’’اے میرے رب میں نے سن لیا ور مان لیا‘‘کوئی اور گنجائش نہ ہو ۔

حج اظہارِ بندگی کا بہترین انداز ہے۔ جب ایک حاجی رب کے حکم کی تعمیل کے لیے جسم پر دو سفید چادریں لپیٹ کر گھر سے نکلے تو وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے اس بات کا عنوان بنا ہوکہ اللہ ہی رب ہے، وہی حقیقی مالک و رازق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے سوا سب جھوٹے دعویدارِ خدائی فنا ہونے والے ہیں، صرف اللہ ہی ہمیشہ اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ اظہاربندگی اور رب کے شکر کا ایک انداز ہی تو ہے کہ رب کے فرمان :

وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

الحج – 29

اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

تو اس حکم  کی تعمیل میں ایک مسلمان خشیتِ الٰہی سے سرشار کبھی کعبہ کا طواف کررہا ہوتا ہے تو کبھی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہا ہوتا ہے، کبھی وقوفِ عرفات کے دوران میں اپنے مالک سے استغفار و مناجات میں مصروف ہے، تو کبھی سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قربانی اللہ کے حضور پیش کررہا ہوتا ہے اور زبان پر تلبیہ کے ان لفاظ کا ورد ہوتاہے: 

لبیك اللھم لبیك، لبیك لاشریك لك لبیك ان الحمد و النعمة لك والملك لاشریك لك

’’اے اللہ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے پاس حاضر ہوں، بے شک تعریف، نعمت اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔‘‘

ذِکرِ الہی

اسلام کی تمام عبادات كا مقصد حقیقت میں الله تعالیٰ کا ذکر ۔ نماز كی مشروعیت کا مقصد بھی ذكر الہٰی ہے، جیساكہ الله نے ارشاد فرمایا:

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ  لِذِكْرِي

طه – 14

بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔

یعنی تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، قربانی اور حج سب اللہ کی کبریائی بلند کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جن آیات میں حج کے احکامات بیان کیے ہیں ان میں خاص طور پر ذکر کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ

البقرۃ – 198

 جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرحرام کے پاس ذکرِ الٰہی کرو ۔

اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِِ عرب جاہلیت میں حج سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں ٹھہر جاتے تھے اور اپنے اپنے آباو اجداد کی سخاوت، دریا دلی، شجاعت و بہادری کے واقعات سناتے ہوئے ایک دوسرے پر فخر و غرور کرتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد اس سے منع کیا گیا اور صرف اللہ کی بزرگی، بڑائی اور عظمت بیان کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی لیے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ حج کے دوران میں تلبیہ پڑھتے رہیں کیونکہ یہ اللہ کی بزرگی، بڑائی اور بادشاہی کا اقرار ہے۔

ام المؤمنین سیده عائشه رضی الله عنها سے روایت هے كه نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ

أبی داؤد – 1888 / الترمذی – 902 / صححه الترمذی و ابن قدامه ’’الکافی‘‘ 1/516 وقال ابن باز فی فتاویه 16/186 : ثابت

 كہ بیت اللہ کا طواف کرنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اور کنکریاں مارنا، یہ سب اللہ کی یاد قائم کرنے کے لیے مقرر کئے گئے ہیں ۔

ذکرِ الہی عظیم عبادت ہے اور اطاعت الہی کا بہترین نمونہ ہے ۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ألا أنبِّئُكُم بخيرِ أعمالِكُم ، وأزكاها عندَ مليكِكُم ، وأرفعِها في درجاتِكُم وخيرٌ لَكُم مِن إنفاقِ الذَّهبِ والورِقِ ، وخيرٌ لَكُم من أن تلقَوا عدوَّكُم فتضرِبوا أعناقَهُم ويضربوا أعناقَكُم ؟ قالوا : بلَى . قالَ : ذِكْرُ اللَّهِ تَعالى قالَ معاذُ بنُ جبلٍ : ما شَيءٌ أنجى مِن عذابِ اللَّهِ من ذِكْرِ اللَّهِ

صحیح الترمذی – 3377

کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم ( میدان جنگ میں ) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی ( یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل ) “ لوگوں نے کہا: جی ہاں، ( ضرور بتائیے ) آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے“۔

حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں :

مَا شَيْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ

صحیح الترمذی – 3377

اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ۔

گناہوں سے نجات

حج گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، کیونکہ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو مسلمان کے تمام گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس طرح جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہیں کیا جاتا، ایسے ہی خلوصِِ نیت سے کیے ہوئے حج سے مسلمان کا نامۂ اعمال برائیوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے لگےتو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ بیعت لینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں، جب نبی ﷺ نے ہاتھ آگے بڑھایا تو عمرو نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا ،نبی ﷺ نے پوچھا اے عمرو ! کیا بات ہے ؟ حضرت عمرو کہنے لگے کہ میری ایک شرط ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا شرط ہے ؟ عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میری شرط یہ ہے کہ میرے سارے گناہ معاف ہوجائے ، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

أما عَلِمْتَ أنَّ الإسْلامَ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟ وأنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَها؟ وأنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟

صحیح مسلم – 121

اے عمرو  !کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام سابقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور (اللہ کی راہ میں کی گئی) ہجرت سابقہ نافرمانیوں کو مٹا دیتی ہے اور حج بھی سابقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔‘‘

Related Posts