اسرائیلی فوج نے شام کے ساحلی شہر کے ایک پہاڑ پر ایک ایسا خطرناک حملہ کردیا ہے، جس نے پوری دنیا کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ طرطوس میں ہونے والا یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے شام پر چھوٹا نیوکلئیر حملہ تھا، دھماکا اتنا بڑا اور شدید تھا کہ زلزلہ پیما سنسر پر اس کی شدت 3.0 ریکارڈ کی گئی تھی۔
یہ دعویٰ ایک رپورٹ میں گیا کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر حملے کے ذریعے شام میں واقع اسکڈ میزائل کی تنصیب کو تباہ کیا۔ تاہم رپورٹس میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس حملے سے ہونے والا نقصان بہت سنگین تھا اور اسرائیل کی جانب سے شام پر چھوٹا نیوکلئیر حملہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔
دھماکے کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں زور دار دھماکے کے ساتھ 3 شدت کا زلزلہ بھی آیا تھا۔ زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 820 کلومیٹر دور ترکی کے شہر ازنک تک محسوس کیا گیا۔
مزید برآں روسی میڈیا تنظیم سپوتنک نے اس دوران کہا تھا کہ اسرائیل نے اسے ایک جنگی جہاز سے نئے میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ تاہم کچھ رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ دھماکے میں امریکا کا تیار کردہ B61 ایٹمی بم استعمال ہوا تھا۔
کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دھماکے کے 20 گھنٹے بعد بھی ترکی اور قبرص میں تابکاری کی سطح معمول سے زیادہ تھی۔ یہ ڈیٹا یورپی یونین کے ریڈی ایشن مانیٹرنگ سسٹم نے فراہم کیا۔ لوگوں کو یہ لگا کہ شاید کوئی چھوٹا ایٹمی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔
جمعہ (20 دسمبر) کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے تک جاری رہنے والے امن مشن میں توسیع کے بعد اسرائیلی فورسز اتوار (22 دسمبر) کو گولان کی پہاڑیوں میں شام-اسرائیل جنگ بندی لائن کے ساتھ ساتھ کام کرتی رہیں۔
اقوام متحدہ کے مشن میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی اور سلامتی کونسل نے خدشہ ظاہر کیا کہ علاقے میں فوجی سرگرمیاں کشیدگی میں اضافہ کر سکتی ہیں۔