فلسطین میں نسل کشی اور خطے کے ان ہمسایہ ممالک کی طاقت کو توڑنے کے بعد جو کسی حد تک فلسطینیوں کی مدد کر سکتے تھے، اسرائیل نے اب ایران پر ایک نام نہاد “پیشگی حملہ” کر دیا ہے۔
یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی جب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ نے 12 جون 2025 کو اعلان کیا کہ ایران 20 سال بعد پہلی بار جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے جس سے ایران کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) میں لے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
سلامتی کونسل میں رپورٹ پہنچنے سے قبل ہی اسرائیل نے “آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے ایران پر فضائی اور خفیہ ڈرون حملے شروع کیے جن میں ایرانی جوہری تنصیبات، دفاعی نظام، بیلاسٹک میزائل سائٹس اور اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں نطنز افزودگی پلانٹ اور خنداب ری ایکٹر کو شدید نقصان پہنچا، اگرچہ زیر زمین فورڈو مرکز محفوظ رہا۔ 200 سے زائد طیاروں اور ڈرونز کی تعیناتی، خفیہ اداروں کی ہم آہنگی کے ساتھ، اسرائیل کے فوجی دائرہ کار کو ظاہر کرتی ہے۔
ایران نے فوری ردعمل میں 13 جون کو “آپریشن ٹرو پرومس III” شروع کیا، جس میں 150 سے زائد بیلاسٹک میزائل اور 100 سے زائد ڈرونز اسرائیلی اہداف پر داغے گئے۔
اسرائیلی آئرن ڈوم اور امریکی مدد سے زیادہ تر حملے ناکام بنا دیے گئے تاہم جمعہ کی رات تک کم از کم 22 اسرائیلی زخمی ہوئے۔ امریکا نے اردن، سعودی عرب اور شام میں اپنے دفاعی نظام بھی فعال کر دیے۔
یہ غیر معمولی نہیں ریاستی دہشت گردی کی موجد امریکا نے ایک بار پھر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا ساتھ دیا۔ یہ سلسلہ 1948 سے جاری ہے، جب سے اسرائیل وجود میں آیا، اور متعدد بین الاقوامی مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کو فلسطینیوں اور پڑوسی ممالک کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں ملوث قرار دے چکی ہیں۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی فوجی، معاشی اور سفارتی حمایت سے اسرائیل نے ایک ایسا ریاستی نظام قائم کر لیا ہے جو ہر طرح کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور عسکری جارحیت کو تقریباً مکمل آزادی سے انجام دیتا ہے۔
ایران کے ساتھ حالیہ تصادم مشرق وسطیٰ میں غیر مستحکم صورتحال کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ جب ایران جواب میں کارروائی کر رہا ہے، عالمی برادری ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کردار ایک بار پھر زیرِ سوال ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل کو امریکا کی جانب سے سب سے زیادہ امداد ملی ہے۔ کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق 2024 تک امریکا نے اسرائیل کو 160 ارب ڈالر سے زائد کی دوطرفہ امداد فراہم کی، جس میں زیادہ تر فوجی معاونت شامل ہے جدید ہتھیاروں، میزائل دفاعی نظام، اور خطے میں اسرائیل کی عسکری برتری کو برقرار رکھنے کے لیے۔
امریکی امداد کے علاوہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کو اقتصادی، فوجی اور تکنیکی امداد دی ہے۔ جرمنی نے ایسے آبدوز فراہم کیے جو جوہری ہتھیاروں کے قابل ہیں۔ یہ حمایت اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جارحانہ کارروائیوں کو بھی بڑھا رہی ہے۔
اس بے مثال حمایت کے نتیجے میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر ظلم و جبر، غزہ پر 16 سالہ محاصرہ اور متعدد عسکری کارروائیوں کے ذریعے لاکھوں شہریوں کو ہلاک یا بے گھر کیا ہے۔ ہر امریکی ڈالر اسرائیل کو بغیر نتائج کے کاروائیاں کرنے کی طاقت دیتا ہے، جس سے اس کے لیے سزا سے بچاؤ کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
اسرائیل کے ریکارڈ میں فلسطینی علاقوں میں اجتماعی سزا، ٹارگٹ کلنگ، گھروں کی مسماری، بغیر مقدمہ قید، اور نہتے مظاہرین پر براہ راست گولیاں شامل ہیں۔ صرف2023-2024کی غزہ جنگ میں 35000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔
ہسپتال، اسکول، واٹر پلانٹس جیسی بنیادی تنصیبات کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا، جس سے غزہ کو ایک انسانی بحران میں تبدیل کر دیا گیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل نے امریکی ویٹو پاور، فوجی امداد اور مغربی ممالک کی مدد سے فلسطین کو تقریباً مٹا دیا ہے۔
فلسطین سے آگے اسرائیل نے شام، لبنان اور ایران میں ہدفی قتل اور سائبر حملے کیے ہیں، جنہیں اکثر امریکا یا اس کے اتحادیوں کی خاموش منظوری یا براہ راست تعاون حاصل رہا ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ایران پر حالیہ حملہ خطرناک اور فیصلہ کن موڑ ہے۔ اسرائیل ان حملوں کو حزب اللہ اور ایران کی مبینہ جوہری سرگرمیوں کا جواب قرار دیتا ہے، مگر ایک خودمختار ملک پر بغیر اشتعال حملہ، وہ بھی ایک عالمی طاقت کی پشت پناہی سے، دنیا کے لیے ایک خطرناک مثال بن جاتا ہے۔
ایران نے جوابی کارروائی میں میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اگرچہ جدید دفاعی نظام کی وجہ سے جانی نقصان کم رہا، مگر سیاسی اور عسکری اثرات گہرے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کا براہِ راست تصادم خطے میں ایک وسیع جنگ کو جنم دے سکتا ہے، جس میں حزب اللہ، شامی ملیشیا اور شاید خلیجی ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ صورتحال امریکی خارجہ پالیسی کا منفرد واقعہ نہیں۔ امریکا ماضی میں ایسے کئی ریاستی دہشت گردوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ انڈونیشیا میں 1965-66 میں 5 لاکھ سے زائد مشتبہ کمیونسٹوں کا قتل امریکا کی خفیہ حمایت سے ہوا۔ 1970–80 کی دہائی میں امریکا نے لاطینی امریکا میں آمروں کی حکومتوں کو مدد فراہم کی، جو تشدد، اغوا اور قتل عام میں ملوث رہیں۔ سعودی عرب، مصر اور بحرین جیسے آمرانہ حکومتوں کو امریکا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود تعاون فراہم کیا۔
سویت افغان جنگ کے دوران امریکا نے مجاہدین کو سی آئی اے کے ذریعے اسلحہ اور امداد فراہم کی، جن میں سے کچھ بعد میں انتہا پسند گروہوں میں بدل گئے۔ خود ساختہ “وار آن ٹیرر” بھی ایک ریاستی دہشت گردی کی مثال تھی، جس میں اپنے ہی تربیت یافتہ اثاثوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران کا روس اور چین سے بڑھتا ہوا اتحاد اس کشیدہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ چین نے ایران اور سعودی عرب دونوں سے شراکت داری قائم کر رکھی ہے اور سفارتی حل کا حامی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت معاشی اثرورسوخ سے وہ ثالثی کر سکتا ہے۔ روس، جس کی شام میں فوجی موجودگی اور ایران سے پرانے تعلقات ہیں، اسلحہ فروخت یا سیٹلائٹ معلومات فراہم کر سکتا ہے، اگرچہ یوکرین جنگ نے اس کی گنجائش محدود کی ہے۔
ترکی، جنوبی افریقہ، پاکستان اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک ایران کی حمایت بین الاقوامی فورمز جیسے BRICS یا نان الائنڈ موومنٹ میں کر سکتے ہیں، جو اس تنازع کو سامراجیت اور مغربی دوہرے معیار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جسے دنیا کا سب سے طاقتور امن فورم سمجھا جاتا ہے، ایک بار پھر ناکام ہو چکی ہے۔ امریکا کے مسلسل ویٹو کی وجہ سے اسرائیل پر تنقید یا پابندی کی کوئی قرارداد منظور نہیں ہو پاتی۔ یہ رجحان 1948 سے جاری ہے، جس نے عالمی قوانین کے نظام کو مذاق بنا دیا ہے۔
غزہ کی حالیہ جنگ اور اب ایران پر حملے کے بعد بھی سلامتی کونسل جنگ بند کرانے، جنگ بندی یا آزادانہ تحقیقات کا کوئی اقدام نہیں کر سکی۔ مستقل ارکان کی ویٹو پاور، خصوصاً جب سیاسی تعصب کے ساتھ استعمال ہو، کونسل کی ساکھ کو تباہ کرتی ہے۔
یہ صورتحال افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے ممالک میں سلامتی کونسل میں اصلاحات کے مطالبے کو تقویت دیتی ہے۔ اگر سلامتی کونسل بحران کے موقع پر فیصلہ نہیں کر سکتی، تو بین الاقوامی ٹربیونلز، علاقائی سیکیورٹی اتحاد یا عوامی سطح پر بائیکاٹ جیسے متبادل راستے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل-ایران تصادم صرف دو ممالک کے درمیان عسکری جھڑپ نہیں، بلکہ یہ دہائیوں کی بے احتسابی، دوہرے معیار اور جارحیت کا نتیجہ ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے اور اس کے لیے ماحول فراہم کرنے پر جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے صرف اسرائیل میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں۔
اگر دنیا کو امن کی امید رکھنی ہے تو بین الاقوامی قوانین کا یکساں اطلاق ضروری ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دی جانے والی عسکری امداد بند کی جائے۔ چین، روس اور دیگر طاقتوں کو جنگ کے بجائے سفارتی دباؤ اور اجتماعی عالمی نظام کی حمایت سے انصاف کی راہ ہموار کرنی ہو گی۔
دنیا ایک اور علاقائی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر طاقت کے ساتھ اصول نہ ہوں اور اقوام متحدہ جیسے ادارے اصلاحات نہ کریں تو ہم پہلے ہی ایک تباہ کن عالمی جنگ کے راستے پر جا چکے ہیں۔
اسرائیل امریکا کا وسیع ہوتا اتحاد، اور اسرائیلی و امریکی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی حرکات، اب ہولوکاسٹ کو بھی ہٹلر کی تقاریر سے زیادہ “جائز” بنا رہی ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کا ظالمانہ کردار، اقوام اور مذاہب کو متحد کر کے اس کے خلاف ایک مضبوط محاذ بنا سکتا ہے۔