گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے رابطہ کیا تاکہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے مبینہ طور پر 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کو بحال کیا جائے، مگر آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنے سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے آئین پر عمل کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حالیہ سیاسی پیش رفت کا نوٹس لیتے ہیں، مگر ہم ملکی سیاست پر تبصرہ نہیں کرتے، ہمیں امید ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے مطابق آگے بڑھنے کا ایک پرامن راستہ تلاش کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیانات ملک میں جاری سیاسی تناؤ کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔ عام طور پر آئی ایم ایف سیاسی بیان بازی سے دور رہتا ہے، تاہم اس دفعہ سیاسی عدم استحکام بڑھنے کی وجہ سے اس نے ملکی سیاست پر بھی ایک طرح سے رائے زنی کی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی استحکام کتنا اہم ہے۔
دوسری طرف وزارت خزانہ کی جانب سے جاری آئی ایم ایف پروگرام کو ختم کرنے کی حالیہ تجویز کا مطلب ملک کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنا ہے، کیونکہ ملک شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے، ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ ہے، کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کا مسئلہ ہے اور سب سے بڑھ کر سیاسی بحران بھی ہے، جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔
ہمیں جاننا ہوگا کہ ڈیفالٹ کے پاکستان کی معیشت ہی نہیں معاشرے پر بھی بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ اس سے لیکویڈیٹی بحران، کرنسی کی قدر کا خاتمہ، افراط زر اور سماجی بے چینی جیسے سنگین مسائل جنم لیں گے۔
ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان ان مقامی اور بین الاقوامی قرض دہندگان کو ادائیگی بھی نہیں کر سکے گا جنہوں نے ملک کو گزشتہ سالوں کے دوران قرض دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مارچ 2023 تک پاکستان کا کل عوامی قرضہ 44.5 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا 107.2 فیصد تھا۔ اس میں سے، 17.8 ٹریلین روپے، یا جی ڈی پی کا 42.9 فیصد، مختلف دوطرفہ، کثیر جہتی اور تجارتی قرض واجب الادا تھا۔ مزید برآں پاکستان پر اس سال 17 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے، جو کہ اس کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے۔
اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے تو اسے عالمی مالیاتی منڈیوں اور تنظیموں بشمول انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک تک رسائی سے محروم کردیا جائے گا، جبکہ حال یہ ہے کہ پاکستان اپنی درآمدات اور ترقیاتی اقدامات کی ادائیگی میں مدد کے لیے ان ذرائع سے اہم امداد حاصل کر رہا ہے۔ ان کے بغیر پاکستان کے پاس غیر ملکی کرنسی کی شدید کمی ہو گی، جو خوراک، ادویات، ایندھن اور خام مال سمیت بنیادی اشیا کی درآمد کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستانی روپیہ جو پہلے ہی 2019 سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا 40 فیصد سے زیادہ کھو چکا ہے، ڈیفالٹ کے نتیجے میں اس کی قدر میں مزید تیزی سے کمی آجائے گی۔ پھر یہ کمزور کرنسی درآمدات کی لاگت میں اضافہ کرے گی اور برآمدات بری طرح متاثر ہوکر رہ جائیں گی۔ نیز اس سے تجارتی عدم توازن اور افراط زر کو بھی بڑھاوا ملے گا۔ ڈیفالٹ صارفین اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ختم کرے گا، جس کے نتیجے میں سرمائے کی پرواز شروع ہو جائے گی۔
یہ صرف ہمارے آج کو متاثر نہیں کرے گا بلکہ ہمارا مستقبل بھی اس ڈیفالٹ کے چنگل میں آئے گا اور شدید سماجی اور سیاسی مضمرات سامنے آئیں گے۔ ڈیفالٹ کے نتیجے میں غربت، بے روزگاری اور عدم مساوات میں بھی شدید اضافہ ہوگا۔ نیزعوام میں بدامنی اور مایوسی کو ہوا ملے گی، جو حکومت کی قانونی حیثیت اور استحکام کو ختم کر دے گا اور ممکنہ طور پر پورے نظام کو تباہ کر دے گا۔