فرانسیسی حکام نے پیر کو پورے ملک کے اسکولوں میں طلبہ کی واپسی کے موقع پر خواتین کے عبایا پہننے پر پابندی کے فیصلے کا نفاذ کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی حکومت نے گذشتہ مہینے کے آخر میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگا رہی ہے، کیونکہ اس سے تعلیم میں سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
اس سے قبل مسلم خواتین کے اسکارف پہننے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی تھی کہ یہ مذہبی وابستگی کا مظہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین بچی کی شریف برادران سے ملاقات
پابندی کے فیصلے کا قدامت پسند سیاستدانوں نے خیرمقدم کیا ہے جبکہ انتہائی بائیں بازو کے سیاستدانوں نے اسے شہری آزادیوں سے متصادم قرار دیا ہے۔
وزیراعظم الزبتھ بورن نے شمالی فرانس میں ایک اسکول کے دورے کے موقع پر کہا کہ اس صبح چیزیں ٹھیک رہی ہیں۔ ابھی تک کوئی (بدمزگی) واقعہ نہیں ہوا، ہم تمام دن چوکنا رہیں گے تاکہ طلبہ اس اصول کو سمجھ سکیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ مخصوص اسکولوں میں ہی طالبات عبایا پہن کر پہنچیں۔
الزبتھ بورن کے مطابق ’کچھ نوجوان لڑکیاں اسے (عبایا) اتارنے پر رضامند ہو گئیں۔ باقیوں کے ساتھ ہم تعلیمی طریقوں سے بات کریں گے تاکہ انہیں سمجھایا جا سکے کہ یہ ایک قانون ہے جس کا اطلاق ہو رہا ہے۔‘
انتہائی بائیں بازو کے سیاستدان صدر ایمانیول میخواں کی حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لی پین اور ان کی جماعت نیشنل ریلی سے مقابلہ کرنے کے لیے عبایا پر پابندی لگائی ہے اور وہ قدامت پسند سیاست کی راہ پر جا رہے ہیں۔
قبل ازیں وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے آر ٹی ایل ریڈیو کو بتایا کہ حکام نے 513 اسکولوں کی نشاندہی کی ہے جو تعلیمی سال کے آغاز پر پابندی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
فرانس میں تقریباً 45 ہزار اسکول ہیں اور پیر کو ایک کروڑ 20 لاکھ طلبا کی اسکولوں میں واپسی ہو رہی ہے۔