اندرون سندھ سے آئے سیلاب متاثرین اپنے اوپر گزری قیامت کی داستان سناتے رو پڑے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اندرون سندھ سے آئے سیلاب متاثرین اپنے اوپر گزری قیامت کی داستان سناتے رو پڑے
اندرون سندھ سے آئے سیلاب متاثرین اپنے اوپر گزری قیامت کی داستان سناتے رو پڑے

پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ صوبہ سندھ میں شہر کے شہر، گاؤں کے گاؤں سیلابی ریلے میں ڈوب چکے ہیں۔ 

ایسی صورتحال میں اپنا زیور اور قیمتی سامان بیچ کر کئی متاثرین کراچی منتقل ہوئے۔ کراچی کے ایک گورنمنٹ اسکول میں پناہ گزیر متاثرین اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کی داستان سناتے رو پڑے۔

ایم ایم نیوز نے سچل گوٹھ میں پناہ گزیر سیلاب متاثرین سے بات چیت کی، اس دوران ایک بوڑھی خاتون اپنی تکلیف بتاتے ہوئے رونے لگ گئی۔ بوڑھی خاتون کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، نہ کھانے کو کچھ ہے نہ پیینے کو، نہ کپڑے ہیں نہ سونے کا بستر۔

روتے ہوئے خاتون نے لوگوں سے اپیل کی کہ ہماری مدد کی جائے ہمارے پاس زہر تک کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ اللہ کے واسطے ہماری مدد کرو آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

ایک اور متاثرہ خاتون نے گورنمنٹ اسکول کی صورتحال کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس یہاں کچھ نہیں ہے، نہ بجلی ہے نہ پانی ہے۔ سیلاب متاثرہ خاتون نے کہا کہ بچے بھوکے مر رہے ہیں، مجھ سے کھانا مانگتے ہیں میں کہاں سے کھانا دوں انہیں؟

خاتون نے مزید بتایا کہ میرا شوہر گاؤں میں ہے، وہاں پانی میں ہے جبکہ میں صرف اپنے بچوں کو لے کر یہاں آئی ہوں۔ میری مدد کرو کوئی بھی مدد نہیں کر رہا حکومت بھی مدد نہیں کر رہی، مجھے اپنے بچوں کو کھانا دینا ہے۔

ایک اور خاتون اپنی تکلیف بتاتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھنے لگی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ ہم لوگ کمبر شہداد کوٹ کے رہائشی ہیں، مجبوری میں یہاں آئے ہیں۔ وہاں سب گھر گر گئے لیکن یہاں بھی کوئی مدد نہیں مل رہی۔ حکومت بھی کوئی مدد نہیں کر رہی۔

سیلاب متاثرہ خاتون نے ایم ایم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا گاؤں کمبر شہداد کوٹ ہے، ہمارے بچے اسکول جاتے تھے اب اسکولوں میں بھی پانی آگیا ہے، بچے اب اسکول نہیں جا سکتے۔

متاثرین میں ننہے بچے نے اسکول اور دوستوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا گھر بھی نہیں بچا، اسکول جاتے تھے اس میں بھی پانی آگیا۔ اب ہم کہاں جائیں؟ یہاں آئے ہیں یہاں اسکول بھی نہیں ہے اور ہماری پڑھائی بھی چلی گئی ہے۔

ایک متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ہم مجبور ہو کر آئے ہیں، ہم خوشی سے نہیں آئے۔ ہم سندھ کے رہنے والے ہیں ہمارا مرنا جینا سندھ میں ہے، لیکن خدارا اس مشکل وقت میں ہماری مدد کی جائے۔

سیلاب متاثرین کا مزید کہنا تھا کہ گورنمنٹ اسکول میں غسل خانے کی بھی سہولت میسر نہیں، حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی طبی امداد نہیں دی جارہی۔ نہ پانی ہے نہ بجلی، پانی بھی ہم باہر سے بھر کے لارہے ہیں۔ سیلاب متاثرین نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ خدارا حکومت جتنی ہوسکے ہماری مدد کرے۔

گورنمنٹ اسکول میں کئی متاثرہ ننہے بچے بخار میں تپ رہے تھے اور کئی اپنے اوپر گزری قیامت کی درد بھری کہانی کو یاد کر رہے تھے جس نے ان سے ان کی کتابیں، بستہ، اسکول سب چھین لیا۔ بیٹھے بٹھائے سر سے چھت ہٹ جانے کی تکلیف پر شاید یہ ننہی جانیں کئی داستانیں لکھ سکتی ہیں۔ لاکھوں سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔

متاثرین میں بیشتر کا حکومت سے گلہ ہے کہ حکومت کی جانب سے انھیں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ صرف نجی امدادی ادارے اُن کی تھوڑی بہت مدد کر رہے ہیں۔

Related Posts