اسرائیلی فوجی دستے کو تنہا کچلنے والے نوجوان کی ایمان افروز داستان

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ ایک ایسا افسانوی منظر ہے، جو شاید پہلی نظر میں حقیقت کے بجائے ایکشن فلم کا کوئی سین محسوس ہو، مگر یہ ایک سچا اور ناقابل یقین جرات و بہادری کی داستان ہے، جس کے واقعات کی عظمت دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔

اس منظر میں ایک فلسطینی مجاہد نے “طوفان الاقصیٰ” کی عظیم جدوجہد کے دوران ایک غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا۔
وہ ایک رہائشی عمارت کے اندر، اکیلا اور تن تنہا قابض صہیونی فوجیوں کے ایک گروہ کے سامنے ڈٹ گیا، ان پر کاری ضربیں لگائیں، متعدد کو زخمی کیا اور بالآخر شہادت کا جام نوش کر گیا۔ تو اس داستان کی حقیقت کیا ہے؟
ایک مختصر ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جو ایک قابض فوجی کے ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے ریکارڈ ہوا، جس کی تاریخ مارچ 2024 ہے، جسے حال ہی میں خود صہیونی میڈیا نے نشر کیا ہے۔ اس ویڈیو میں شدید جھڑپیں دکھائی گئی ہیں جو صفر فاصلے سے اسرائیلی “جفعاتی بریگیڈ” کے اہلکاروں اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان ہو رہی تھیں۔ اس ویڈیو کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان فوجیوں کے پورے جتھے کا مقابلہ کرکے، انہیں دھول چٹانے اور خون کے آنسو رلانے والا صرف ایک اکیلا مجاہد تھا، جس نے انہیں اس عمارت کے اندر ایک پہلے سے تیار شدہ گھات میں لا کر شدید نقصان پہنچایا۔
45 سیکنڈ کی ویڈیو… دشمن پر ٹوٹی قیامت:
اس ویڈیو کلپ کی مدت صرف 45 سیکنڈ ہے، جس کا آغاز قابض فوجیوں کے ایک عمارت میں مکمل ہتھیاروں اور جنگی سازو سامان کے ساتھ داخلے سے ہوتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ویڈیو کے آغاز میں ہی ایک فوجی زخمی حالت میں سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور فوراً ہی صہیونی فوجیوں کی چیخ و پکار اور مدد کی دہائیاں سنائی دیتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں، خوف کے مارے گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ چند ہی لمحوں میں کچھ زمین پر گِر جاتے ہیں اور کچھ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے نظر آتے ہیں، کچھ زخمی، اور کچھ خالصتاً خوفزدہ۔ یہ مناظر کسی ہالی ووڈ فلم کے سین کی طرح لگتے ہیں، مگر ایسا نہیں…بلکہ یہ ایک سچا واقعہ ہے، کوئی اداکاری نہیں۔
دشمن کو لرزانے والا:
جیسے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر ہوئی، فلسطینی عوام اور سوشل میڈیا صارفین نے اس غیر معمولی بہادری پر جوش انداز میں خوشی کا اظہار کیا۔ اس بات پر سب حیران ہوئے کہ یہ حملہ ان صہیونی فوجیوں پر کیا گیا تھا جو کہ قابض فوج کی اسپیشل کمانڈو یونٹ سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں انتہائی مہارت اور سخت تربیت دی جاتی ہے۔ جن پر صہیونی ریاست کو بڑا فخر اور ناز ہے۔ لیکن جب معلوم ہوا کہ اس ساری جھڑپ، گھات اور زبردست جانی نقصان کے پیچھے صرف ایک اکیلا مجاہد تھا، جس کا نام نعیم یوسف الدغمہ تھا تو حیرت، جوش اور فخر سب ایک ساتھ اُمڈ پڑے۔ سوشل میڈیا پر اس مجاہد کو “مُرعب العدو” یعنی دشمن کو خوف میں مبتلا کرنے والا قرار دیا گیا۔
حافظ قرآن… مزاحمت کی جیتی جاگتی تصویر:
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ نعیم الدغمہ جنہوں نے قابض فوجیوں پر شدید وار کیے، جن کے اثرات ویڈیو میں واضح طور پر نظر آتے ہیں (اگرچہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان جھڑپوں میں کتنے فوجی ہلاک ہوئے) کا تعلق جنوب مشرق خان یونس کے علاقے عبسان جدیدہ سے تھا۔ وہ حافظِ قرآن تھے اور دوسروں کو قرآن حفظ کروانے کا مقدس کام بھی انجام دے رہے تھے۔ یعنی حفظ پڑھانے والے قاری تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 27 برس تھی۔ انہوں نے دشمن کا سامنا نقطہ صفر (Point Blank) سے کیا، پیٹھ نہیں دکھائی بلکہ سینہ تان کر شہادت حاصل کی۔ یہی ہے حقیقی چہرہ مزاحمت کا، جس کے جانباز صاحبِ قرآن بھی ہوتے ہیں اور مردِ میدان بھی۔
مزاحمت کا روشن چہرہ:
سوشل میڈیا پر شہید نعیم الدغمہ کی بہادری اور شجاعت کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور انہیں مزاحمت کا اصل چہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب صہیونی فوجی مکمل اسلحہ، حفاظتی جیکٹیں، ڈرونز اور اوپر سے فضائی مدد کے ساتھ گھروں پر حملے کر رہے ہیں اور پھر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا کر “فتح” کا دعویٰ کرتے ہیں، وہاں نعیم الدغمہ جیسے نوجوان، اکیلا کھڑے ہو کر دشمن کو پسپا کر دیتے ہیں۔
ایک صارف نے “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: “وہ مجاہد، جسے دنیا نے تنہا قابض فوج کی جفعاتی بریگیڈ سے لڑتے دیکھا، جب وہ انہیں خان یونس کے ایک گھر میں نشانہ بنا رہا تھا اور وہ فوجی اس کی گولیوں سے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے چوہے، وہ کوئی عام انسان نہیں تھا، وہ تھا حافظ اور معلمِ قرآن، شہید نعیم الدغمہ۔”
کلامِ الٰہی کی تجلّی:
ایک صارف لکھتے ہیں: “مجھے نہیں معلوم کہ اسرائیلی فوجیوں نے شہید نعیم الدغمہ کے ساتھ اس جھڑپ میں کیا دیکھا،
لیکن یہاں قرآن کریم کے وہ الفاظ پوری شان سے نظر آتے ہیں:
“اور ہم نے ان کے دلوں میں رُعب ڈال دیا”
“جب تم نے پھینکا تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکا”
یہی ہے اللہ پر ایمان۔
جب تم سچے مؤمن بن جاتے ہو تو عام انسان نہیں رہتے، بلکہ غیر معمولی طاقت بن جاتے ہو… کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے، وہ تمہاری مدد کرتا ہے، تمہیں ثابت قدم رکھتا ہے۔”
ایک اور صارف جذباتی انداز میں لکھتے ہیں: “شہید نعیم الدغمہ کی ویڈیو میں مردانگی اور بہادری کے تمام مفہوم موجود ہیں…
ایک نوجوان جس کا جسم چھوٹا تھا، مگر حوصلہ پہاڑ سے بڑا،
تن تنہا، مکمل طور پر مسلح دشمن کے ایک یونٹ کو پاش پاش کر دیتا ہے… دشمن فوجی سیڑھیوں پر اس کے سامنے ایسے بھاگتے ہیں جیسے خوفزدہ چوہے، اور وہ ان پر جھپٹتا ہے جیسے شکاری باز اپنے شکار پر… اللہ اسے شہداء میں قبول فرمائے۔”
یہ شیروں کی کھچار خان یونس ہے:
یہ ویڈیو کلپ دراصل خان یونس میں مزاحمت کی تصویری شہادت ہے۔ جسے اسرائیلی فوجی سنسرشپ کے باوجود میڈیا میں جاری کرنے کی اجازت ملی۔ یہ ہے قرآن کا حافظ، نعیم الدغمہ، وہ شہید جس نے صہیونی فوج کا اکیلا مقابلہ کیا اور دشمن کو لرزا کر رکھ دیا۔
نقابیں گرا دینے والا مجاہد
ایک اور صارف نے لکھا: “یہ صرف ایک نمبر کا مجاہد نہیں تھا… بلکہ ثبات و استقامت کی نشانی تھا! ایک شخص جو اکیلا کھڑا ہوا اور پوری صہیونی بریگیڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ قرآن کا حافظ تھا اور اللہ کے راستے میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والا جانباز۔ اگر کوئی ایسے شخص پر طعن کرتا ہے، تو آسمان گواہ بنے کہ ایسے طعنہ زن غلام ہیں، آزاد نہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ نعیم کو نعمتوں سے نوازے اور صالح شہداء میں داخل فرمائے، اور طعنہ زنوں سے انتقام لے۔”
ایک اور صارف نے نعیم الدغمہ کی شجاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: “یہ جھڑپ دو بہ دو تھی، غزہ کے ایک گھر کے اندر… میدانِ جنگ کے بیچوں بیچ! اس لمحے تمام نقاب اُتر گئے، قابض صہیونی فوجی براہِ راست مزاحمت کاروں کے سامنے کھڑے تھے، نہ کوئی طیارہ اُن کی پشت پر تھا، نہ ڈرون اُن کی رہنمائی کر رہا تھا… اور جیسے ہی حقیقی ٹکراؤ کا پہلا لمحہ آیا تو ڈر اور خوف غالب آ گیا۔ یہ تھا نعیم الدغمہ، قرآن کا حافظ، جس نے صہیونیوں کا بالکل افسانوی انداز میں سامنا کیا۔
اس کے پاس صرف ایمان اور بندوق تھی اور اُس نے دشمن کو یوں چیخنے پر مجبور کیا جیسے عورتیں چیختی ہیں۔ تبصرہ نگار مزید لکھتا ہے: “یہ وہی نعیم ہے جس پر شیخ عثمان خمیس نے اور اس کے رفقا پر “منحرف” ہونے کا الزام لگایا اور لافی العازمی جیسے کمینے نے انہیں “سرنگوں کے چوہے” کہہ کر پکارا!”
ایمان … میدان کا اصل ہتھیار:
اسی پوسٹ میں مزید لکھا گیا: “دیکھو انہیں، کیسے پیچھے ہٹتے ہیں… خوفزدہ، بغیر کسی صبر و ثبات کے۔ اگر انہیں امریکہ کی بے پناہ حمایت حاصل نہ ہوتی، تو وہ اس جنگ میں ایک لمحہ بھی نہ ٹِک پاتے۔ اس جنگ میں قوت کا کوئی توازن نہیں، لیکن عزم و ادارے اور حوصلے و اعصاب کا مقابلہ ہے اور میدان گواہی دے رہا ہے: “جسے اپنی حقانیت کا یقین ہو، جس کا ایمان مضبوط ہو، اُسے کبھی شکست نہیں دی جا سکتی!”
حافظِ قرآن … کی بیٹی کا فخر:
سوشل میڈیا پر شہید نعیم الدغمہ کے بارے میں شائع ہونے والی پوسٹوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ سال 2020 میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک مجلسِ قرآن میں شریک تھے، جہاں انہوں نے پورا قرآن ایک ہی نشست میں زبانی سنایا تھا۔ نعیم کے ساتھ پورے تیس پاروں کا دور کرنے والے حافظ محمد شفیق النجار کا تعلق بھی خان یونس سے تھا۔
اکتوبر 2024 میں ایک صارف نے شہید نعیم الدغمہ کو یاد کرتے ہوئے پوسٹ کی، جب ان کی زوجہ نے ان کی شہادت کے سات ماہ بعد ایک بیٹی کو جنم دیا۔ یہ بچی ایک ایسی جنگ کے دوران پیدا ہوئی جس میں اس کے والد نے فوجی معیار کے مطابق ایک ناقابلِ یقین بہادری کا مظاہرہ کیا اور قربانی و شجاعت کی ایک بے نظیر مثال قائم کی۔ یہ بیٹی جب بڑی ہو گی، تو دنیا سے فخر سے کہے گی: “یہ ہیں نعیم الدغمہ… یہ میرے بابا ہیں!”

Related Posts