ایک گانے سے قیامت برپا، سن کر کتنے لوگوں کی جان گئی، رونگٹے کھڑے کرنے والی حقیقی داستان

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

"The Deadliest Song in the World: ‘Gloomy Sunday’ Linked to Nearly 100 Suicides"
Hofer Filmtage

دنیا میں موسیقی کو ہمیشہ دلوں کا سہارا، جذبات کا اظہار اور یادوں کی خوشبو سمجھا گیا ہے مگر ہنگری سے تعلق رکھنے والے موسیقار ریزسو سریس کے لکھے گئے ایک گانے نے دنیا میں خوف کی ایک ایسی داستان رقم کی جسے آج بھی سن کر دل کانپ جاتے ہیں۔

1933 میں لکھا گیا یہ گانا جس کا نام “گلومی سنڈے” تھا، دراصل سریس نے اپنی محبوبہ کی جدائی کے غم میں لکھا تھا۔

اس گانے کی شاعری اتنی دلخراش اور افسردہ تھی کہ اسے سننے والے کئی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گانے کو “ہنگرین سوسائیڈ سانگ” کا نام دیا گیا۔

ابتدائی طور پر کسی بھی گلوکار نے اسے گانے کی ہمت نہیں کی مگر 1935 میں جب یہ گانا پہلی بار ریلیز ہوا تو گویا قیامت برپا ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق گانا سنتے ہی لوگوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا اور خودکشی کے کئی واقعات میں جائے وقوعہ پر یہی گانا چل رہا تھا۔

رپورٹس کے مطابق ابتدائی طور پر 17 افراد کی خودکشی کی اطلاع ملی مگر بعد میں یہ تعداد 100 کے قریب پہنچ گئی۔ صورتحال اس قدر نازک ہو گئی کہ 1941 میں ہنگری حکومت نے اس گانے پر پابندی عائد کر دی۔

اہم امر یہ ہے کہ یہ پابندی 62 سال بعد 2003 میں ہٹائی گئی لیکن اس کے بعد بھی کچھ لوگ اس کے اثر سے نہ بچ سکے۔

سب سے چونکا دینے والا لمحہ اس وقت آیا جب خود اس گانے کے خالق، ریزسو سریس نے بھی اپنی زندگی اسی اتوار کے دن ختم کی جس کا ذکر انہوں نے گانے میں کیا تھا۔

انہوں نے پہلے عمارت کی کھڑکی سے چھلانگ لگائی مگر بچ جانے پر اسپتال میں خود کو بجلی کے وائر سے پھانسی دے دی۔

اس کے باوجود یہ گانا اتنا مقبول ہوا کہ دنیا بھر کے 100 سے زائد گلوکاروں نے اسے 28 زبانوں میں گایا۔ “گلومی سنڈے” آج بھی موسیقی کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جذبات کی شدت کس قدر مہلک بھی ہو سکتی ہے۔

Related Posts