دنیا کی وہ تاریک گلیاں جہاں عزتیں نیلام ہوتی ہیں اور انسانیت دم توڑتی ہے، وہاں صرف عورت کا جسم نہیں بلکہ اُس کا ماں ہونا بھی ایک مارکیٹنگ پوائنٹ بن چکا ہے۔
بھارت کی مشہور یو ٹیوبر کویتا سنگھ کے پوڈ کاسٹ میں سماجی رہنما سواتی شرما نے بتایا کہ جسم فروشی کے مراکز میں دودھ پلانے والی ماؤں کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جو یا تو نومولود بچوں کی مائیں ہوتی ہیں یا اُنہیں ہارمونز کے ذریعے ایسا ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہ کوٹھے منظم انداز میں بٹے ہوتے ہیں، کہیں صرف ورجن لڑکیاں، کہیں شمال مشرقی علاقوں کی لڑکیاں، کہیں بنگالی خواتین اور ایک خاص کوٹھا اُن خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے جو دودھ پلا رہی ہوتی ہیں۔
یہاں آنے والے اکثر بوڑھے، بیمار یا ایچ آئی وی کے مریض ہوتے ہیں جو ایک خطرناک مِتھ پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی ورجن یا دودھ پلانے والی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا جائے تو ایچ آئی وی کا علاج ممکن ہے۔
یہ بدنصیب خواتین نہ صرف جسمانی اذیتیں سہتی ہیں بلکہ ذہنی، نفسیاتی اور طبی تشدد کا شکار بھی بنتی ہیں۔ سواتی شرما کے مطابق جب کوئی لڑکی بار بار زیادتی کا شکار ہوتی ہے تو اُس کی اندام نہانی کھلنے لگتی ہے جس پر وہ لوگ خود ہی ٹانکے لگا کر اصلی حالت میں واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ کوئی ہسپتال، نہ نشہ آور دوا سب کچھ وحشیانہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ان لڑکیوں کو مسلسل نشہ دیا جاتا ہے، ہارمونز کے انجیکشنز لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ وقت سے پہلے بالغ نظر آئیں، اور اُن کے جسمانی اعضاء جیسے چھاتی کو بڑا کر کے گاہکوں کو متوجہ کیا جا سکے۔
ان میں کئی وہ بچیاں بھی شامل ہیں جنہیں ان کے سگے باپ یا سوتیلے والد نے بیچ دیا۔ ایک کیس میں تو بچی کے والد نے خود اُسے کوٹھے پر اس امید پر بھیجا کہ روزانہ دو سے تین ہزار روپے ملیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کووڈ کے دنوں میں تو خواتین دال روٹی کے بدلے جسم فروشی پر مجبور تھیں۔ رکشہ والے، مزدور، جو بھی تھوڑا بہت کھانا دے سکتا تھا، وہ اُن کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا تھا۔
یہ عورتیں نہ پولیس کے پاس جا سکتی ہیں، نہ کسی عدالت کے دروازے پر دستک دے سکتی ہیں۔ کیونکہ نہ صرف اُن کا استحصال کرنے والے عام گاہک ہوتے ہیں بلکہ اُن کے محافظ یعنی پولیس والے بھی اکثر استحصالی رویہ رکھتے ہیں۔ پولیس اہلکار اکثر اُن سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے یہ خواتین انسان نہیں بلکہ صرف جسم ہوں۔
آخر کب تک یہ خاموش چیخیں بے صدا رہیں گی؟ کب تک معاشرہ صرف اُن کا جسم دیکھے گا اور اُن کی اذیت سے آنکھیں چرائے گا؟ بدنام گلیوں کا یہ درد اب سچ بن کر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔