روئے زمین پر اَن گنت مخلوقات اور ان بے شمار مخلوقات کی لاتعداد انواع و اقسام بستی ہیں اور پروردگارِ عالم نے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب عطا فرما کر تمام تر مخلوقات میں سب سے افضل قرار دے دیا۔ سب سے اہم صلاحیت انسان میں تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے جس سے کام لیتے ہوئے انسان نت نئی اختراعات کرتا اور عالمِ رنگ و بو میں ایک سے ایک حیران کن کارنامے سرانجام دیتا نظر آتا ہے جس پر بعض اوقات خود عقلِ انسانی بھی دنگ رہ جاتی ہے۔
بعض اوقات تخلیقی صلاحیت اور قیادت کی 2 اہم خصوصیات مل کر کسی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی اور اسے دیگر کے مقابلے میں قابلِ ذکر اور اہم ترین بنا دیتی ہیں۔ محترم آغا خان کے معاملے میں بھی ان دونوں خوبیوں کو ایک ہی شخصیت میں متحرک دیکھا جاسکتا ہے جو ایک قدآور اور عظیم شخصیت کی ذات میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی بات کی جائے تو آغا خان نے اس تنظیم کی قیادت کے دوران اختراعات اور تخلیقی صلاحیتوں کو بے حد اہمیت دی ہے۔ اے کے ڈی این کے تحت ایسے ادارے قائم کیے گئے جو نہ صرف فعال ہیں بلکہ جمالیاتی طور پر خوشنما اور ثقافتی لحاظ اپنے محلِ وقوع سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ یہ نقطۂ نظر بہت سے تاریخی شہروں اور شہری علاقوں میں خاص طور پر مؤثر ثابت ہوا ہے جہاں ثقافتی ورثے کا تحفظ تعمیر وترقی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ضرورت مندوں کی پیسوں سے مدد کردینا یا کھانا کھلانا ہی سماجی خدمت ہوتا ہے اور زیادہ تر ویلفیئر تنظیمیں مستحقین کی امداد کیلئے فوٹو سیشن تک ہی محدود نظر آتی ہیں تاہم محترم آغا خان نے یہاں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بے مثال مظاہرہ کیا جو انسان دوستی کیلئے ان کے گراں قدر نقطۂ نظر سے عبارت ہے۔ محض چندہ دے کر مدد کرنے کی بجائے آغا خان نے سماجی و معاشی مسائل کے پائیدار حل پیدا کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مقامی معاشروں اور جماعتوں کے ساتھ مل کر ایسے اہم حل پیش کیے جو مقامی آبادی کی مخصوص ضروریات کے عین مطابق تھے جس کیلئے باہر سے لائے گئے پیشگی تصورات کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔آغا خان کی توجہ سے گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر جہاں پکی اینٹ کی کوئی بلڈنگ بھی نہ ہوا کرتی تھی، وہاں اب نہ صرف پختہ تعمیرات اور گھر نظر آتے ہیں بلکہ علاقہ مکینوں کو مناسب روزگار بھی میسر ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہتری لائے جانے سے علاقہ مکینوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما بہتر ہوئی اور ان کو ایسے ہنر اور مہارتیں سیکھنے میں آسانیاں پیدا ہوئیں جس کا اہتمام و انصرام اے کے ڈی این نے کیا ، جس سے یہ گاؤں اور شہر قدرتی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔
بحیثیتِ مجموعی آغا خان کی تخلیقی صلاحیتیں اور قیادت عظیم کاموں کے ایک لامتناہی سلسلے کو جنم دیتی نظر آتی ہیں اور وہ ہر بار کسی بھی مخصوص حدود و قیود سے باہر جا کر نہ صرف سوچتے بلکہ پیچیدہ مسائل کے جدید ترین حل بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی قیادت ان تخلیقی خیالات اور پیش کیے گئے حل کو حقیقت میں بدلنے کیلئے توجہ اور سمت بھی فراہم کرتی ہے۔ یہی تمام تر خوبیاں محترم آغا خان کی مقناطیسی شخصیت کو ایک متحرک ، مؤثر اور انسان دوست رہنما بناتی ہیں جس نے انسانی قدروں پر بے پناہ مثبت اور تعمیری اثرات مرتب کیے ہیں۔ آئیے محترم آغا خان کی ذات اور گراں قدر شخصیت کے افکار و کردار سے متعلق کچھ حقائق کی نقاب کشائی کرتے ہیں:
محترم آغا خان 13 دسمبر 1936 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مسکراتی، اٹکھیلیاں کرتی اور ہنستی کھیلتی نظر آتی ہے۔ یہاں معیارِ زندگی خوبصورت ترین علاقے اور متنوع ثقافتوں سے مزین اور بے حد بلند ہے جس کا ترقی پذیر ممالک اور افریقہ و ایشیا کے پسماندہ ممالک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے ایک ایسے خاندان میں جنم لیا جسے اسلامی وراثت کا حامل اور تاریخی اعتبار سے قیادت کی صدیوں طویل تاریخ رکھنے کا شرف حاصل ہے۔
اپنی پیدائش کے وقت محترم پرنس کریم آغا خان کے دادا اور تحریک آزادی کے سرگرم رہنما سرسلطان محمد شاہ آغا خان اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا کے فرائضِ منصبی بڑی جانفشانی اور نیک نیتی سے نبھانے میں مصروف تھے۔ آپ کے والد شہزادہ علی خان عالمی برادری میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور ان کی بات اقوامِ عالم اور بین الاقوامی میڈیا میں بڑی توجہ سے سنی جاتی تھی، ان کے ایک ایک قدم پر اخبارات میں شہ سرخیاں اور بیانات شائع ہوجایا کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی برس پرنس کریم آغا خان نے سوئٹزرلینڈ میں گزارے، پھر مشہور بورڈنگ اسکول “انسٹیٹیوٹ لوروزے” سے تعلیم حاصل کی اور جب آپ کی عمر 20 برس کی ہوئی تو آپ کے شفقت سے لبریز دادا آغا خان سوم کا انتقال ہوگیا اور راتوں رات جواں سال پرنس کریم آغا خان کی دنیا ہی بدل کر رہ گئی۔
نوجوانی کی امنگوں سے بھرپور زندگی عموماً ہر قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھی جاتی ہے اور جس سطح کی دولت کی ریل پیل اور دنیا بھر کے چنیدہ امراء اور مشہورومعروف شخصیات کے ہمراہ آپ کے خاندان کی نشست و برخاست ریکارڈ پر موجود ہے، ایسے ماحول میں جہاں رقص و مشروب کی بہتات ہوتی ہے جس سے اجتناب اور کنارہ کشی ایسی قدآور شخصیت کا شعار ہوا کرتی ہے، اپنے دادا آغا خان سوم کی جانب سے امامت کے فرائضِ منصبی سونپے جانے پر آغا خان نے اسماعیلی جماعت کی قیادت اپنے عہدِ جوانی سے ہی پوری سنجیدگی، ذمہ داری اور صدق دلی سے سنبھال کر اپنی متاثر کن قیادت سے انسانی قدروں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا۔
نئے امام کی حیثیت سے جواں سال پرنس کریم آغا خان نے اسماعیلی برادری کی قیادت کی ذمہ داری کو بطریقِ احسن سرانجام دینا شروع کیا اور تمام تر جماعت کو اپنے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے انسان دوست کاوشوں اور کوششوں سے ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دیا جسے ترقی پذیر دنیا میں معیارِ زندگی کو بلند کرنے والا آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کہا جاتا ہے اور جو 30 سے زائد ممالک میں مخلوقِ انسانی کی خدمت اور مستحقین کی مددو معاونت کا سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ آغا خان نے نہ صرف قیادت کے فرائض بخوبی نبھائے بلکہ صحت، تعلیم، فنِ تعمیر اور ثقافت سمیت دیگر شعبہ جات میں ایسے ادارے تشکیل دئیے جنہیں ہر سطح پر تعریف و توصیف کے تبصروں سے نوازا اور شاندار الفاظ میں سراہا جاتا ہے۔
اگر ہم ایک قدم پیچھے جائیں تو 1960ء میں محترم آغا خان نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ڈگری حاصل کی۔ 1961ء میں شادی کی جس سے پرنسس زہرہ آغا خان، پرنس رحیم آغا خان اور پرنس حسین آغا خان پیدا ہوئے۔ 1967ء میں اپنے آغاز کے ساتھ ہی آغا خان فاؤنڈیشن نے کامیابی سے ضرورت مند افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آغا خان فاؤنڈیشن کی شاندار کامیابی کے بعد آپ نے 1977ء میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی جو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب ترقیاتی اداروں کا ایسا گروپ ہے جو ترقی پذیر ممالک میں عوام کے حالاتِ زندگی اور مواقع کو بہتر بنانے کیلئے جانفشانی سے کام کرتا ہے۔ 1998ء میں آپ نے بیگم انارا آغا خان سے شادی کی۔ 2017ء میں آپ کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی اور اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا کے طور پر 60 سال مکمل ہوئے۔ 2020ء میں محترم آغا خان نے آغا خان میوزک ایوارڈز کے قیام کا اعلان کیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں مسلم معاشروں کی موسیقی کی روایات کو فروغ دینا تھا۔
بطور قائد و انسان دوست رہنما آغا خان کا کردار صرف اسماعیلی جماعت کیلئے ہی نہیں بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ذی شعور اور ذہین اشخاص کیلئے بھی قابلِ تقلید مثال بن گیا جو ہرکس و ناکس کیلئے مشعلِ راہ ہے اور جس سے متعدد اقوام آج بھی فیضیاب ہورہی ہیں۔ یہاں یہ بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ محترم آغا خان نے جو ادارے قائم کیے، وہ خاص طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم عوام کی دلجوئی اور خدمت کر رہے ہیں ۔
ترقیاتی اداروں پر مشتمل محترم آغا خان کے قائم کردہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کو امید کی کرن دے کر ان کی زندگیوں میں بہتری پیدا کی ہے۔ اے کے ڈی این کے منصوبوں سے ان خطوں کے لوگوں کی زندگیوں میں خاص طور پر صحت، تعلیم، دیہی ترقی اور ثقافتی تحفظ کے شعبہ جات میں بہتری سے انسانی ذہن سازی میں نمایاں کامیابی ملی اور پراجیکٹ ایریا کے لوگوں میں وہ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر نہ صرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں بلکہ معاشرے میں بھی کارگر افراد کے طور پر ابھریں جس سے نہ صرف متعلقہ علاقوں بلکہ ان ممالک کی تعمیر و ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ پسماندہ افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کیلئے اے کے ڈی این کے تحت چلائے جانے والے کئی کلینکس اور ہسپتال عوام کو طبی سہولیات تک رسائی فراہم کررہے ہیں۔ شعبۂ تعلیم کے تحت اسکولز اور یونیورسٹیز میں خواتین کو تعلیم فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ روایتی اعتبار سے اسکول تک رسائی سے محروم خواتین کو بھی تعلیم مہیا کی جاسکے۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور بااختیار بنانے میں مدد دیتی ہے۔ معاشرے کے نظر انداز کردہ دیہی طبقات کیلئے بھی اے کے ڈی این کا کردار قابلِ ذکر و لائقِ تحسین ہے جس میں بنیادی انفرااسٹرکچر ، زرعی پیداوار میں اضافے اور صاف پانی اور صفائی کی سہولیات تک رسائی جیسے زندگی کے جسمانی و ذہنی نشوونما کیلئے ضروری تمام عوامل شامل ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، آغا خان ایجوکیشن سروسز اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے دیگر متعدد ادارے انسانیت کی خدمت کیلئے گراں قدر سہولیات فراہم کر رہے ہیں ۔ اقوامِ عالم کے کئی شعبہ جات آغا خان کے قائم کردہ اداروں بشمول آغا خان یونیورسٹی اور آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر بھی آغا خان کے پراجیکٹس اور اسکیموں کو رول ماڈل کے طور پر پیشِ نظر رکھتے ہوئے ملکی شعبہ جات اور اداروں کو بہتری کی جانب گامزن کیا جائے جو آغا خان کے پراجیکٹس کی طرح نہ صرف دنیا کے جدید تقاضوں کو پورا کریں بلکہ ملک بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت بھی کرسکیں۔ اسی راہ کو اختیار کرتے ہوئے ہمارا وطن بھی تعمیر و ترقی کی نئی منازل کی جانب گامزن ہوسکتا ہے اور ایسی ہی جدید راہوں پر چلتے ہوئے ہم اقوامِ عالم میں نمایاں مقام حاصل کرکے ربّ العزت کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں۔