افغانستان کے صوبہ غور کی طالبان انتظامیہ نے صوبے میں خواتین کو جہیز اور وراثت کی مد میں 20 ملین سے زائد افغانی رقم دلوادی۔
محکمہ کے میڈیا آفس کے سربراہ شمس الحق موحد نے باختر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ رواں سال کے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صوبے میں سینکڑوں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر توجہ دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عرصے کے دوران خواتین کے 2 کروڑ 80 ہزار مالیت کا جہیز اور وراثت انہیں واپس کی گئی اور اس کے علاوہ صوبے میں خواتین کے حقوق کی مزید حمایت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
شرابی دلہا نے دلہن کی سہیلی کو ورمالا پہنا کر دلہن سے تھپڑ کھا لیا
شمس الحق موحد نے کہا کہ دین اسلام کے احکام اور امارت اسلامیہ کی حکمت عملی کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم کر دے۔
افغانستان میں جہیز ایک پیچیدہ اور سماجی و ثقافتی مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات میں بیٹی پر جہیز کی زمے داری نہیں، لیکن افغان معاشرے میں مختلف ثقافتی روایات کے تحت جہیز کی رسم عام ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔
جہیز کا مطلب لڑکی کے والدین کی طرف سے دی جانے والی اشیاء (کپڑے، فرنیچر، زیورات وغیرہ) ہوتا ہے، جو شادی کے بعد لڑکی کی زندگی آسان بنانے کے لیے دیا جاتا ہے۔
کچھ علاقوں میں جہیز دینے کا دباؤ والدین پر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات غریب گھرانوں کو قرض تک لینا پڑتا ہے۔