ایشین ویٹ لفٹنگ ماسٹرز چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتنے والے مسیحی ایتھلیٹ سائبل سہیل پھر نظر انداز

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
Sybil creates history for Pakistan
tribune

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والی ایشین ویٹ لفٹنگ ماسٹرز چیمپئن شپ میں پاکستان کی 31 سالہ مسیحی ایتھلیٹ سائبل سہیل نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سونے کا تمغہ جیت لیا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن گئیں۔

یہ ان کی ویٹ لفٹنگ میں بین الاقوامی سطح پر پہلی شرکت تھی، جبکہ وہ پہلے ہی کامن ویلتھ پاور لفٹنگ چیمپئن کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ 59 کلوگرام کیٹیگری میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے مجموعی طور پر 95 کلوگرام وزن اٹھایا، جس میں 40 کلوگرام اسنیچ اور 55 کلوگرام کلین اینڈ جرک شامل تھے۔

سائبل کا کہنا تھا کہ:”ہم نے کھیل کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، میں ہمیشہ چاہتی تھی کہ اپنے خاندان اور ملک کا نام روشن کروں۔”

سائبل لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی خاندان کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ ان کی دیگر تین بہنیں ٹوئنکل، ورونیکا، اور مریم سہیل بھی پاور لفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ کی دنیا میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ 2024 کی کامن ویلتھ چیمپئن شپ میں ان چاروں بہنوں نے 15 طلائی تمغے جیتے تھے، جن میں سے چھ سائبل کے نام رہے۔

یہی نہیں، 2017 میں سنگاپور میں ہونے والی اوشیانا پیسیفک پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں بھی سائبل نے اسکواٹ، بینچ پریس، ڈیڈ لفٹ، اور اوورآل کیٹیگری میں چار طلائی تمغے جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا تھا۔

ان کے والد سہیل جاوید کھوکھر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ “میری بیٹیاں نہ صرف پاکستان کی بلکہ پاکستانی مسیحی برادری کی بھی شان ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں کیلئے نئی راہیں کھولی ہیں لیکن افسوس کہ حکومت نے ان کی بین الاقوامی شرکت میں کوئی مدد نہیں کی۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک ان کی تمام کامیابیاں نجی اسپانسرز کے بل بوتے پر حاصل ہوئیں، جبکہ حکومتی سطح پر صرف سوشل میڈیا پر رسمی مبارکباد پر اکتفا کیا گیا۔

سائبل کو 2016 میں جنوبی ایشیائی کھیلوں کیلئے ہونے والے ویٹ لفٹنگ ٹرائلز میں شرکت کا موقع اس لیے نہ مل سکا کیونکہ اسی دن ان کا امتحان تھا۔ ان کی بہن ٹونکل نے کہا:”اس دن کے بعد سے یہ اس کا خواب بن گیا تھا۔ نو سال بعد اس نے وہ خواب سچ کر دکھایا۔”

ٹونکل نے بھی 2019 میں نیپال میں ہونے والے ایونٹ میں شرکت سے محرومی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ “ہم ان تلخ تجربات کو ہی اپنی طاقت بناتے ہیں۔ یہی محرومیاں ہمارے حوصلے کو جِلا دیتی ہیں۔”

سائبل سہیل نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ ویٹ لفٹنگ خواتین کیلئے نقصان دہ ہے۔ ان کے بقول کہ “یہ ایک مفروضہ ہے کہ وزن اٹھانا خواتین کی صحت یا زچگی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اصل میں یہ صحت مند پریکٹس ہے اور خواتین کو بھی مضبوط جسم اور اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔”

جس طرح ارشد ندیم کی کامیابی پر حکومتی سطح پر پذیرائی، انعامات اور قومی ستائش کی خبریں سامنے آتی ہیں، اسی طرح سائبل سہیل کی اس تاریخی اور نایاب کامیابی پر مکمل خاموشی، خاص طور پر ان کے مسیحی پس منظر کے باعث، قوم کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

سائبل سہیل نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ نہ صرف خواتین بلکہ اقلیتوں کیلئے امید کا چراغ ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ چراغ قومی میڈیا، کھیلوں کے بورڈز، اور حکومتی ایوانوں تک روشنی نہ پہنچا سکا۔

Related Posts