سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کو بلیک لسٹ کرنے کی درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر مسترد کر دی۔
کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہوئی تاہم درخواست گزار محمود اختر نقوی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
یہ درخواست محمود اختر نقوی نے دائر کی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے مختلف منصوبوں کے دوران مبینہ قانونی خلاف ورزیاں کی ہیں اور اسے بلیک لسٹ کرنا عوامی مفاد میں ہے۔
بحریہ ٹاؤن، پاکستان کا ایک معروف رہائشی اور کمرشل منصوبہ ساز ادارہ، ماضی میں متعدد تنازعات کا شکار رہا ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس سمیت دیگر مالی اور قانونی معاملات میں اس کا نام آچکا ہے، جس میں ادارے پر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگے تھے۔
سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی درخواست پر سماعت کے دوران محمود اختر نقوی کی غیرحاضری پر عدالت نے درخواست کو عدم پیروی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کی عدم موجودگی کے باعث کیس کو آگے بڑھانا ممکن نہیں تھا اور کیس کو نمٹا دیا گیا۔
بحریہ ٹاؤن کے خلاف قانونی مقدمات اور تنازعات پر عوامی دلچسپی ہمیشہ سے برقرار رہی ہے۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ملے جلے ردعمل دیکھنے کو ملے ہیں۔ کچھ افراد نے عدالت کے فیصلے کو قانونی تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا جبکہ دیگر نے درخواست گزار کی غیرحاضری پر سوالات اٹھائے ہیں۔
یہ فیصلہ بحریہ ٹاؤن کے لیے ایک اہم قانونی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں اس کے خلاف کئی کیسز زیر بحث رہے ہیں تاہم ادارے کے خلاف دیگر قانونی معاملات ابھی بھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔