دیکھیں اور غور سے میری اس بات کو سننے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے اپنی کاوشیں میں اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک میری سانسیں باقی ہیں، مظلوم فلسطینیوں کی بات ہو ان کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔
اسی طرح سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بھی جدوجہد کرتا رہوں گا اور اس ملک میں جو لاپتہ افراد ہیں ان کی بازیابی کے لئے بھی آواز اٹھاؤں گا اور جہد مسلسل کا یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔
جب میں ایک سینیٹر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہا تھا اس وقت بھی میں فلسطینیوں کے لئے اواز اٹھانے کے ساتھ اپنی اور اپنی جماعت کی جانب سے فرائض سر انجام دیتا رہا ہوں۔ آپ نے جو کچھ دیر پہلے یہ بات کہی کہ آئے روز اپ کی گرفتاریوں کے حوالے سے خبریں و تصاویر دیکھتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ آپ ہی کو ہماری ملک کی پولیس گرفتار کرتی ہے اور اپنا مہمان چند دنوں کے لئے بنائے رکھتی ہے۔ کیا اس بارہا کی مہمان نوازی سے آپ تنگ نہیں آگئے اور اس قدر مہمان نوازی آپ ہی کی کیونکہ جاتی ہے؟
ایک سینیٹر کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے آواز اٹھائی ہے اور اس سے ملنے کے لئے امریکہ میں اس جیل گیا ہوں جہاں اسے برسوں سے قید کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے بھی رابطہ رہتا ہے، ان کی والدہ مرحومہ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ہیں، جب وہ حیات تھیں تو ان سے بھی رابطے میں رہا کرتا تھا اور انہیں تسلی و تشفی دیا کرتا تھا۔ وہ ایک نڈر اور بہادر خاتون تھیں صرف اللہ سے امید رکھتی تھیں اور بارہا یہ کہا کرتی تھیں کہ انسان کا کام کوششیں کرنا ہے۔ لہٰذا وہ کاوشیں قوم کی بیٹی کی رہائی کے لئے فلسطینیوں کو اسرائیلیوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لئے ہم ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی جاری رکھیں گے۔ جہاں تک مہمان خانوں کی بات ہے تو یہ مہمان خانے یہ تھانے اب ہمیں ہمارے عزائم کی تکمیل سے ہمیں نہیں روک سکتے ہیں۔
رکن جماعت اسلامی اور سابق سینیٹر مشتاق احمد کی یہ باتیں تھیں جو تحریری صورت میں آپ کے سامنے رکھیں، ان باتوں کو سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو ،
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ۔ ۔ ۔
اس شعر کی عملی عکاسی مشتاق احمد صاحب کی ذات میں پنہاں ہے، متعدد بار اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی سنوائی ہوتی ہے تو ان سے ملاقات ہوتی ہے، تاہم نومبر کی اس ملاقات میں ان کی یہ گفتگو ان کے ارادوں اور ان کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہیں۔ مشتاق احمد صاحب جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے وطن عزیز میں اسلامی انقلاب کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
گو کہ اب تلک جماعت اسلامی کو ووٹوں کے لحاظ سے وہ حیثیت حاصل نہیں ہو پائی کہ جس کے بعد وہ تن تنہا کسی صوبے میں اپنی حکومت بناتی لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کی خدمات کو عوام بخوبی جانتی ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے لئے جماعت اسلامی ہی کے ادارے الخدمت نے جو خدمات سرانجام دی ہیں اور تاحال ان کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے وہ اس جماعت کی قابل تحسین کاوشیں ہیں۔
مظلوم فلسطین جو اس وقت 50 سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہوں اور عوام کی جانب دیکھ رہے ہیں، انہی ممالک کی عوام اپنے حکمرانوں کے کردار کو دیکھ رہی ہے کہ وہ ہمدردی کے چند الفاظ سے بھی آگے فلسطینیوں کے لئے نہیں بڑھ پاتے ہیں، ایسی صورتحال میں الخدمت کے ساتھ وہ تمام ادارے و شخصیات جو انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی مظلوم فلسطینیوں کے لئے کچھ کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں، یقینا اللہ رب العالمین ہی انہیں اس جہد مسلسل کا اجر انہیں دے گا۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد نے جاتے جاتے یہ بھی کہی کہ اللہ حاضر و ناظر ہے اور وہ سب دیکھ رہا ہے اس صورتحال میں اگر ہم ذرا سی بھی فلسطینیوں کے لئے، مظلوم انسانوں کے لئے ہمدردی اور جدوجہد نہیں کرتے ہیں تو اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ لہذا میں یہ کہتا ہوں کہ ہر شخص فلسطینیوں کے لئے، مظالم سے نجات کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق کچھ کرے ، خواہ آواز کی صورت میں، مظاہرے کی صورت میں، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی صورت میں غرض یہ ہے کہ جس طرح سے بھی ہو وہ اس طرح کے عمل کا مظاہرہ ضرور کرے اور ان تمام کاموں کے ساتھ اللہ رب العالمین سے، ان مظلوموں کے لئے مسلسل دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھے۔
بسا اوقات ہی نہیں اکثر اوقات ایک عجب کیفیت اس بات پر ہمارے ذہنوں میں ہم پر ، احساسات رکھنے والوں پر طاری ہوتی ہے کہ آج 200 سے زائد اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں اکثریت فلسطینیوں کے لئے ہمدردی اور ان پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ہیں، لیکن اسرائیل آج بھی اپنے مظالم کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف وہ کردار ادا نہیں کرتی ہیں جو انہیں ادا کرنا چاہیے، ان کے اس طرز عمل سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ وہ بھی مضموم مقاصد کے لئے بھرپور نوعیت کی منافقت کا مظاہرہ کرتی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کے ذمہ داران فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف عملی اقدامات کریں، جب تک ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اور کوششیں نہیں ہوں گی تب تک اس یہ سلسلہ مظالم جاری رہے گا لہذا اسلامی ممالک کے سربراہوں کو حقائق مدنظر رکھتے ہوئے اگے بڑھنا ہوگا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے حکومت پاکستان اک چار رکنی وفد امریکہ بھیجے گا جس میں ڈاکٹر فوزیہ بھی شامل ہوں گی وہ وفد ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے ساتھ ہی امریکی حکومت کی ذمہ داران سے بھی اس حوالے سے بات کرے گا، گو کہ اب تک جب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیلوں میں قید ہیں اس نوعیت کا قدم نہیں اٹھایا گیا تاہم اب یہ قدم جو اٹھایا گیا ہے امید ہے کہ اس اقدام کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے جاری کاوشیں اور زیادہ تندہی کے ساتھ جاری رکھی جانی چاہئیں اور کسی بھی طرح سے اس وفد کی روانگی سے واپسی تک کے عمل میں سستی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اس وفد کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس وفد میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ وفاقی وزیر قانون کو بھی شامل ہونا چاہئے کیونکہ حکومتی وزیر کے شمولیت سے ان کی امریکہ میں ملاقاتوں سے زیادہ بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا، اس کے باوجود بھی وفد سے مثبت اقدام کی امید کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی مقصد کیلئے انسان محنت و مشقت کرتا ہے اور اگر یہ مقصد زیادہ لوگوں جا ہوتا ہے تو اجتماعی مقاصد کے حصول کیلئے اجتماعی جہدوجہد ہوتی ہے۔
بالکل اسی طرح ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تن تنہا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے نکلیں تھیں، اس وقت ان کا انفرادی طور پر یہ مقصد تھا تاہم طویل جدوجہد کے بعد اب یہ جہد انفرادی سے اجتماعی جانب بڑھ گیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے جو کاوشیں طویل مدت سے کی جا رہی ہیں وہ نہ صرف جاری رہیں گی۔ بلکہ ان کاوشوں کا اختتام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت رہائی کی صورت میں سامنے آئے گا، انشاءاللہ ۔ ۔ ۔