اسرائیلی فوج میں پھوٹ پڑ گئی، فضائیہ کے بعد بحریہ افسران بھی جنگ کیخلاف میدان میں آگئے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اعلیٰ افسران نے جنگ کو اسرائیل کے بجائے نیتن یاہو کی سیاسی ضرورت قرار دیدیا، فوٹو عالمی میڈیا

اسرائیلی فضائیہ کے ایک ہزار اہلکاروں کے بعد اب بحریہ کے درجنوں اہلکاروں نے بھی نتن یاہو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر روکا جائے تاکہ اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے۔
عبرانی اخبار “یدیعوت احرونوت” کے مطابق، اسرائیلی بحریہ کے تقریباً 150 افسران نے ایک مشترکہ خط وزیر اعظم نتن یاہو، وزیر دفاع یسرائیل کاٹز، کنیسٹ (پارلیمان) کے ارکان اور فوجی قیادت کو ارسال کیا ہے، جس میں انہوں نے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ “ابھی بھی 59 اسرائیلی شہری غزہ میں یرغمال ہیں”۔
ادھر نجی عبرانی چینل “12” نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی بکتر بند دستوں کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی اسی مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے پیغام میں زور دیا ہے کہ “غزہ میں جاری لڑائی سیکورٹی نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے کی جا رہی ہے”۔
یہ غیر معمولی اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب غزہ کی جنگ اٹھارہویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اسرائیل کو اندرونِی طور پر بھی بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، خاص طور پر یرغمالیوں کے اہل خانہ اور سابق فوجی افسران کی طرف سے۔

مزید پڑھیں: غزہ کی حمایت پر برطرف مراکشی خاتون انجینئر ابتہال ابوسعد کا مائیکروسافٹ کیخلاف نیا ویڈیو پیغام

واضح رہے کہ اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں ریزرو پائلٹس کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ کو روک کر یرغمالیوں کی رہائی کو ترجیح دینے کے مطالبے پر اسرائیلی فوج نے سخت ردعمل دیا ہے۔ جمعرات کے روز ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے (AFP) کو بتایا کہ “چیف آف اسٹاف کی مکمل حمایت کے ساتھ، اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ نے فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی فعال ریزرو پائلٹ اس خط پر دستخط کرے گا، وہ مزید فوج میں خدمات انجام نہیں دے سکے گا۔”
یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا جب تقریباً ایک ہزار ریٹائرڈ یا ریزرو پائلٹس نے ایک عوامی عرضداشت پر دستخط کیے، جسے اسرائیل کے متعدد اخبارات میں پورے صفحے پر شائع کیا گیا۔ اس میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی جنگی قیدیوں کی رہائی کو جنگ پر ترجیح دی جائے، چاہے اس کے لیے حماس کے خلاف جاری کارروائی عارضی طور پر روکنی پڑے۔ یہ عریضہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی پالیسیوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، جو سمجھتے ہیں کہ حماس پر فوجی دباؤ بڑھانا ہی واحد راستہ ہے جس سے یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج اور حکومت کے اندر بھی غزہ کی جنگ کے حوالے سے اختلافات گہرے ہو رہے ہیں، خاص طور پر جب یرغمالیوں کے اہل خانہ اور سابق افسران مسلسل حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

جمعرات کی شام اسرائیلی اخبار “ہآرٹس” نے اطلاع دی کہ اسرائیلی فضائیہ کے 970 اہلکاروں جن میں ریزرو اور ریٹائرڈ پائلٹس شامل ہیں نے ایک ایسے عرضداشت پر دستخط کیے ہیں جو غزہ میں جاری جنگ کی مخالفت کرتی ہے، لیکن یہ عرضداشت براہ راست فوجی سروس سے انکار کا مطالبہ نہیں کرتی۔ عریضہ میں لکھا گیا ہے: “ہم، اسرائیلی فضائیہ کے ریزرو اور ریٹائرڈ اہلکار، یرغمالیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں، چاہے اس کے لیے جنگی کارروائیاں فوری طور پر روکنا پڑیں۔ یہ جنگ بنیادی طور پر سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہے، نہ کہ سیکورٹی مفادات کی خاطر۔ جو کہ یرغمالیوں، فوجیوں اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا باعث بن رہی ہے اور ریزرو فوجی سسٹم کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ صرف معاہدہ ہی یرغمالیوں کو بحفاظت واپس لا سکتا ہے، جبکہ فوجی دباؤ کے نتیجے میں عموماً یرغمالیوں کی ہلاکت اور ہمارے فوجیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔”
ایک فوجی اہلکار نے وضاحت کی کہ عریضے پر دستخط کرنے والوں میں سے زیادہ تر افراد فعال ریزرو میں شامل نہیں ہیں، اور یہ بھی کہا کہ: “ہماری پالیسی واضح ہے: فوج کو سیاسی اختلافات سے بالاتر رہنا چاہیے۔”
وزیر اعظم نتن یاہو نے اس اقدام پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ جو بھی فعال پائلٹ اس عریضے پر دستخط کرے، اُسے فوج سے نکال دینا چاہیے۔ وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ایک سخت بیان میں کہا گیا ہے کہ انکار، انکار ہی ہوتا ہے، چاہے وہ اعلانیہ ہو یا نرمی سے ظاہر کیا گیا ہو، جنگ کے دوران ایسے بیانات جو فوج کو کمزور کریں اور دشمنوں کو تقویت دیں، ناقابلِ معافی ہیں”۔
سرکاری اسرائیلی نشریاتی ادارے “کان” کے مطابق، اس عریضے نے اسرائیلی فضائیہ کے اعلیٰ ترین حلقوں میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اس پر دستخط کرنے والوں میں کئی سرکردہ سابق فوجی عہدیدار شامل ہیں۔ ان اہم شخصیات میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) دان حلوتس، سابق فضائیہ کمانڈر، میجر جنرل (ریٹائرڈ) نمرود شیفر، سابق سربراہ، سول ایوی ایشن اتھارٹی کرنل (ریٹائرڈ) نیری یرکونی، سابق سربراہ، انسانی وسائل ڈیپارٹمنٹ (IDF)میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیل ریگیف، فضائیہ کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرلز ریلیک شافیر، امیر ہاسکل اور عساف اگمون بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان سینئر سابق افسران کی جانب سے اس عریضہ پر دستخط کرنا نہ صرف اسرائیلی حکومت بلکہ فوجی قیادت کے لیے بھی ایک علامتی اور عملی چیلنج سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور داخلی سطح پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس عرضداشت کو اس لیے بھی غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج کو ہمیشہ “قومی اتفاق” کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔

سابق اعلیٰ افسران کی جانب سے جنگ کی کھلی مخالفت اس تصویر کو توڑ رہی ہے۔ اسرائیل میں پہلے ہی عدالتی اصلاحات کے معاملے پر گہری تقسیم موجود تھی۔ اب غزہ کی جنگ اور یرغمالیوں کے مسئلے نے اس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو مکمل فتح تک لڑائی جاری رکھنے کا حامی ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو انسانی جانوں کو سیاست پر ترجیح دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر مزید فوجی یا اہم شخصیات ایسے ہی عریضوں کی حمایت کریں، تو یہ حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کر سکتا ہے۔ داخلی دباوٴ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اگر حماس کے ساتھ نیا معاہدہ طے پا جائے تو یہ عریضہ اُس کے لیے بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت سخت رویہ اپناتے ہوئے اختلاف رائے کو “قومی سلامتی کے خلاف” قرار دے، جیسا کہ نتن یاہو کے بیانات سے ظاہر ہے۔

Related Posts