پراثر تحاریر ،منفرد انداز بیان اور حالات کی نبض پر گرفت رکھنے والی مصنفہ مہر تارڑ کچھ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتی ہیں تو یہ دودھاری تلوار سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے۔
مہر تارڑ لاہور میں پیدا ہوئیں اور وہیں پرورش پائی، آج ان کا شمار پاکستان کے معروف کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔
ادب میں پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعدانہوں نے عالمی سطح پر متعدد اخبارات کے لئے کام کیا ہے۔ اس میں ہفنگٹن پوسٹ، این ڈی ٹی وی، گلف نیوز، خلیج ٹائمز اور ڈیلی میل شامل ہیں۔ ان کی کتابوں ڈو وی ناٹ بلیڈاور لیوز فرام لاہورکو بے حد سراہا گیا ہے۔
ہم نے نئے آنیوالے لکھاریوں کی رہنمائی کے لئے مہر تارڑ سے گفت و شنید کا اہتمام کیا جس کا احوال حاضر خد مت ہے۔
سوال : بطور کالم نگار اور مصنف آپ کے کیریئر کا آغاز کیسے ہوا؟
جواب :میں بچپن سے ہی کتابیں پڑھ رہی ہوں، لکھنے سے میری محبت اسکول سے شروع ہوئی۔ میں نے 2010 میں ڈیلی ٹائمز کے لئے لکھنا شروع کیا تھا اور تب سے میں باقاعدگی سے مختلف اخبارات وجرائد کے لئے لکھ رہی ہوں ۔ میری کتابDo We Not Bleedمحض تحریری کلام سے میری محبت کا ایک تسلسل ہے اور میرے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں ذاتی طور پر بات کرنے کی خواہش ہے۔
سوال :آپ کے کیریئر کے انتخاب پر آپ کے اہل خانہ نے کیا رد عمل ظاہر کیا؟
جواب :میرا واحد کام ڈیلی ٹائمز کے لئے کالم لکھنا رہا ہے اور میرے اہل خانہ کو اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
سوال :اگرآپ لکھاری نہیں ہوتیں تو آپ کس پیشے کا انتخاب کرتیں؟
جواب : اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے لئے کام کرتی۔ یہ میرا خواب ہے۔
سوال :خواتین کے لئے اس شعبے میں آنا مشکل تو نہیں ہے؟
جواب : نہیں،یہ صحافت کا پیشہ ہے اور میں اس میں کام کررہی ہوں۔
سوال :آپ کے کیریئر کا قابل فخر لمحہ کون سا تھا؟
جواب : بہت سے مواقعے تھے جن کے متعلق میں بتانا نہیں چاہتی، میں نے مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم اور توہین رسالتﷺ کے قانون کے غلط استعمال پر آواز اٹھائی۔
سوال : اچھا لکھاری ہونے کا راز کیا ہے؟
جواب : جتنا ہو سکے پڑھیں ،گہری دلچسپی سے مطالعہ کریں۔
سوال : کوئی ایسی کتاب جو آپ سمجھتی ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے؟
جواب : گیبریئل گارسیا مارکیزایک سو سال قدیم کتاب ہے۔