سبین محمود کے بغیر معاشرہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Society without Sabeen Mahmud

آج انسانی حقوق کی رہنماء سبین محمود کی پانچویں برسی منائی جارہی ہے،سماج میں ہونیوالے ظلم وستم اور ’دی سیکنڈ فلور‘ کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو درپیش مسائل اجاگر کرنیوالی موثر آواز کو پانچ سال قبل کراچی میں  گولیاں مار کر خاموش کروادیا گیا تھا۔

سبین محمود کی زندگی
سبین محمود 20 جون 1974 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ، وہ ناانصافی اور امتیازی سلوک کو چیلنج کرتے ہوئے تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ میرا سب سے بڑا خواب انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کو بہتر بنانا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی جو عوام کی بھلائی کے لئے ایک ’سماجی پلیٹ فارم‘ مہیا کرتی ہے۔ 2006 میں انہوں نے دی سیکنڈ فلور (ٹی 2 ایف) کی بنیاد رکھی ، ایک کیفے جس میں عوامی فورم کے چرچے ، فلمی نمائشیں ، شاعری کی تحریر ، اسٹینڈ اپ کامیڈی اور براہ راست تھیٹر کی میزبانی کی گئی ۔
ایک جریدے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آپ عوامی جگہ رکھنے کے لئے قیمت ادا کرتے ہیں۔ میرے پاس خوف و ہراس کے سبب وہاں لوگوں کی جانچ پڑتال کیلئے لوگ نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیزیں خطرناک اور بری ہوتی ہیں لیکن آپ کوخوف کو اپنے اوپرحاوی نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ کبھی بھی کچھ نہیں کرسکیں گے، ان کے کام بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج ملی۔

دی سیکنڈ فلور (ٹی 2 ایف)
سبین محمود نے 2006 میں دی سیکنڈ فلور (ٹی 2 ایف) کی بنیاد رکھی۔ یہ غیر سرکاری تنظیم امن کی جانب ایک قدم تھا،انہوں نے کراچی میں واقع ایک کیفے میں دی سکینڈ فلور کی بنیادڈالی۔
اس جگہ کو انسانی حقوق ، امن سازی ، انصاف ، ماحولیات ، معاشرتی ترقی اور غربت کے خاتمے پر مباحثہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ۔ یہاں آرٹ گیلری ، بک شاپ ، ایک کافی ہاؤس اور گفتگو کی جگہ مقررتھی۔
سبین محمودکی قیادت میں ٹی ٹو ایف پر لبرل سماجی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ ترتیب دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف مظاہروں میں بھی شرکت کی اور پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہبی عدم رواداری کے خاتمے کے لئے چلنے والی مہم میں بھی حصہ لیا۔
2013 میں سبین محمود نے کراچی کے ٹی 2 ایف میں شہری مسائل کو حل کرنے کے طریق کار کے حوالے سے زندگی کے مختلف شعبوں سے لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے پروگرام کی مشترکہ میزبانی بھی کی۔
انہوں نے عوامی اعدادوشمار کی میزبانی بھی کی جن میں ’عائشہ صدیقہ‘ بھی شامل تھیں ، جنھوں نے فوجی فنانسنگ سے متعلق ایک متنازعہ کتاب تصنیف کی ، جس کے نتیجے میں انٹر سروسز انٹیلی جنس نے دوسری منزل سے رابطہ کیا۔

سبین محمود کا قتل
سبین محمود کے لواحقین کے مطابق انہیں دھمکی آمیز فون کالز اور ای میلز مل رہی تھیں۔ انٹلیجنس ایجنسیوں نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ ان کا نام ایک ہٹ لسٹ میں تھا جو انہوں نے جنوری میں جاری کی تھی۔
24 اپریل 2015 کو ٹی 2 ایف نے بلوچستان کے حوالے سے ایک گفتگو کا اہتمام کیاجس میں ماما قدیر ، فرزانہ بلوچ اور میر محمد علی تالپور کو شامل گفتگو کیا گیا۔
بلوچستان بڑی حد تک غیر ترقی یافتہ اور پاکستان کا ایک غریب ترین خطہ ہے لیکن یہ قدرتی وسائل سے بھی بڑا مالدار ہے تاہم بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔
گفتگو کے دوران انہوں نے بلوچستان کے مسائل پر ایک مختصر دستاویزی فلم چلائی۔ یہ پروگرام رات 9 بجے کے قریب ختم ہوا ،جس کے بعد سبین محمود اپنی والدہ مہناز محمود کے ساتھ ٹی 2 ایف سے روانہ ہوئیں۔
سبین محمود کی گاڑی ڈیفنس سینٹرل لائبریری کے قریب ٹریفک سگنل کے قریب پہنچی تو مسلح موٹرسائیکل سواروں نے کار کو گھیر لیا اور فائرنگ کردی۔
دوگولیاں سبین کے سینے اور ایک گردن میں پیوست ہوئی اور اس کے ساتھ انسانی حقوق کی موثر آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔

سبین کے بغیر معاشرہ
سبین محمود نے اپنے ملک کے نظرانداز خطے کے بارے میں بات کرنے کی جسارت کی جوان کی موت کی وجہ بنی۔
ان کی والدہ مہناز محمود کے مطابق بہت سارے نوجوان جو خود اظہار خیال نہیں کرسکتے تھے وہ ان کے پاس آتے اور سبین ان سے مشورہ کرتی۔ وہ کبھی کبھی یکجہتی ظاہر کرنے کے لئے اقلیتی گروہوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے وقت نکال لیا کرتی تھیں۔
ان کی والدہ کاکہنا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ ایک ایسے انسان کی حیثیت سے یاد رکھی جائے جس نے مظلوم لوگوں میں اظہار رائے کی آزادی کیلئے آوازاٹھائی ۔
سبین محمود نے معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کو زبان دی ،ان کو بولنا سکھایا اور روایات سے ہٹ کر خواتین کو ایک شناخت دیکر سماجی تحریکوں میں نئی جان ڈالی۔
سبین محمود کی ناگہاں  ہلاکت نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظلوم طبقات کی نمائندگی میں ایک بڑا خلاء پیدا کردیا ہے جوشائد کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔

Related Posts