سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کی کوششیں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت کی نئی سوشل میڈیا پالیسی پر اسے سخت تنقید کا سامنا ہے ، مخالفین کا دعویٰ ہے کہ یہ حکومت کی اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ملک کی جمہوری حکومت آمرانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور اس طرح کے اقدامات تو خصوصاً ناقابل قبول ہیں۔

ملک کے قانون سازوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نئے قواعدکے سلسلے میں پارلیمنٹ اور نظر انداز کردیا گیا اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں ڈیجیٹل میڈیا کی ریگولارائزیشن کا متنازعہ قانون پاس کروایا۔ حکومت نے پہلے ہی میڈیا پر مختلف قوانین کے ذریعے قدغن لگا رکھا تھا ، سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں اظہار رائے کی آزادی تھی تاہم اب ان آوازوں کو بھی خاموش کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

نئی پالیسی کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کو صارف کی معلومات ، ٹریفک کا ڈیٹا ، اور مواد کا ڈیٹا اس حوالے سے تشکیل دی گئی ایجنسی کو بوقت ضرورت پیش کرنا ہوگا اور ایسا نہ کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کواسلام آباد میں تین ماہ کے اندر اپنے دفاتر قائم کرنے اور ایک فوکل پرسن مقرر کرنا ہوگا۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین کی ضرورت کیوں ہے۔ پہلے سے میکانزم موجود ہے جس کے تحت ریاستی حکام متنازعہ مواد کی اطلاع سوشل میڈیا کمپنیوں کو دیتے ہیں جو ان کی اپنی صوابدید پر ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ یہ کمپنیاں اس طرح کے مواد کو ہٹانے کے پابند نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کی خواہش پر کوئی ایکشن لیتی ہیں جبکہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ ان کمپنیوں کو کس طرح سے ذمہ دار ٹہرایا جاسکے گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ کسی بھی گستاخانہ یا توہین آمیز مواد کوہٹانے کے لیے یہ قواعد ضروری ہیں ۔ حکومت کے اس اقدام کی تعریف بھی ہورہی ہے تاہم ان خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ ان قوانین کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان خدشات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا گیا ہے کہ قوانین کا مقصد شہریوں کو نقصان دہ مواد سے بچانا ہے۔سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریر ، جنسی زیادتی اور فرقہ وارانہ مواد کے ذریعہ معاشرے میں بد امنی پھیلانے کا الزام لگاجاتا ہے اورکہا جاتا ہے اس سے نوجوانوں کا ذہن خراب کیا جارہا ہے۔

حکومت نے ان خدشات کو مسترد کیا ہے کہ سوشل میڈیا قوانین سیاسی فائدے کے لیے بنائے جارہے ہیں ۔ یہ بات غیر یقینی لگتی ہے کہ کیونکہ ملک میں ویب اور میڈیا کے ناقص کنٹرول اور ناقص سائبر کرائم قوانین موجود ہیں اور یقینی طور پر اس طرح کے قوانین کا غلط استعمال ہوگا۔ ان ٹیکنالوجیز نے دنیا کو بدلا ہے اور ان پر قابو پانے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں ۔ یہ نئے قواعد آزادی اظہار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتے ہیں۔

Related Posts