وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی جانب سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصول کرنے کی سندھ حکومت کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی سندھ حکومت کے نئے منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔
حال ہی میں، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کے ایم سی کی جانب سے کراچی کے شہریوں سے ماہانہ کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے دو ٹیکس وصول کرنے کے صوبائی حکومت کے منصوبے سے آگاہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے بل میں صارفین سے دو طریقوں سے بالترتیب 100 اور 200 روپے وصول کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق وہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے وسائل سے شہریوں کی خدمت کر سکیں۔
اس اقدام کے اظہار کے بعد سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی کیونکہ انہوں نے نہ صرف کے الیکٹرک کی طرف سے اس طرح کے کسی بھی ٹیکس کی وصولی کو مسترد کیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی زیرقیادت صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا جو گزشتہ 13 سالوں سے صوبے پر حکومت کر رہی ہے۔
دریں اثنا، کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ وہ کے ایم سی کے معاملات میں ”رکاوٹیں ” پیدا نہ کرے۔ اس باہمی رنجش نے ایک بار پھر وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان ماحول کو خراب کر دیا ہے۔ لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر میں شہری انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے اور حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
دونوں جماعتوں کے درمیان گرما گرمی بڑھ گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری پر بھی سخت تنقید کرتے رہے ہیں جبکہ پی پی پی کی قیادت 2018 میں حکومت بنانے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی پر شدید تنقید کرتی آرہی ہے۔
اس لئے دونوں جماعتوں کے درمیان تناؤ کی صورتحال بڑھ رہی ہے، کراچی ڈویلپمنٹ پیکج کی تشکیل کے دوران دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مختصر تعاون کیا لیکن یہ عمل باہمی عدم اعتماد اور الزام تراشی کا شکار بھی ہوا۔ یہ حالت اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ مثبت انداز میں بات چیت کے ذریعے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ کے عوام بنیادی طور پر ان جھگڑوں سے متاثر ہوتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے وزراء اور عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ ان چیزوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا زیادہ وقت عوام کی خدمت میں صرف کریں۔