لاپتہ افراد کیس، وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعظم
(فوٹو: آن لائن)

وزیر اعظم شہباز شریف لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں طلبی پر پیش ہو گئے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔وزیر اعظم نے عدالت میں سماعت کے دوران اپنا مؤقف پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

بے سہارا اور بے بس قوم آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے، شیخ رشید

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ریاست کا وہ ردِ عمل نہیں آیا جو ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ آپ نے لاپتہ افراد پر تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی جس پر عدالت آپ کی مشکور ہے۔ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ جس تکلیف سے گزرتے ہیں، اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا کیس کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ عدالت نے وزیر اعظم کو تکلیف اس لیے دی تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔ ایک چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لوگوں کو اٹھانے کا لکھا۔

ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ یہ آئینی عدالت ہے۔ ہم سول بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی۔ لاپتہ افراد کا معاملہ کئی بار وفاقی کابینہ کو بھیجا، آپ کو بھیجا تو آپ نے کمیٹی بنا دی۔ یہ معاملہ کمیٹی کا ہے نہیں۔ اس سے بڑا تو ایشو ہی کوئی نہیں۔

معزز جج نے کہا کہ سیاستدانوں کو مل کر لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ لاپتہ افراد کمیشن کا طریقہ کار بڑا پریشان کردینے والا ہے۔ سماعتوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین کا دکھ بڑھ گیا۔ قومی سلامتی کے مسائل جتنے اہم ہیں، اتنے ہی ہر شہری کی حفاظت اہم ہے۔

عدالت نے کہا کہ ایک چھوٹا بچہ ہائیکورٹ آیا، ہائیکورٹ اس کو کیا دے؟ گزشتہ وزیر اعظم کے پاس بھی اسے بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آپ نے جس ایگزیکٹو کی بات کی وہ ڈکٹیٹر تھا۔ میں اور میرا بھائی اس کے متاثرین میں شامل ہیں۔

Related Posts